Mualim-ul-Irfan - At-Tawba : 60
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
اِنَّمَا : صرف الصَّدَقٰتُ : زکوۃ لِلْفُقَرَآءِ : مفلس (جمع) وَالْمَسٰكِيْنِ : مسکین (جمع) محتاج وَالْعٰمِلِيْنَ : اور کام کرنے والے عَلَيْهَا : اس پر وَالْمُؤَلَّفَةِ : اور الفت دی جائے قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَفِي : اور میں الرِّقَابِ : گردنوں (کے چھڑانے) وَالْغٰرِمِيْنَ : اور تاوان بھرنے والے، قرضدار وَفِيْ : اور میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ وَابْنِ السَّبِيْلِ : اور مسافر فَرِيْضَةً : فریضہ (ٹھہرایا ہوا) مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : علم والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
بیشک صدقات فقراء کے لیے ہیں اور محتاجوں کے لیے اور جو اس کی تحصیل کا کام کرے ہیں اور ان لوگون کے لیے جن کے دلوں کو الفت دلائی جاتی ہے۔ ( اسلام کے مقصد میں) اور گردنوں کو آزاد کرنے میں اور تاوان بھرنے والوں کے لیے۔ اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں اور مسافروں کے لیے۔ یہ فریضہ ہے ٹھہرایا ہوا اللہ کی طرف سے ۔ اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے
ربط آیات : اس سے پہلے جہاد میں عدم شرکت کی وجہ سے منافقین کی مذمت بیان ہوچکی ہے نیز یہ بھی واضح فرمادیا گیا ہے کہ منافقین جو مال اللہ کے نام پر خرچ کرتے ہیں وہ اس بنا پر قابل قبول نہیں کہ وہ توحید و رسالت اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے اور نہ اپنی خوشی خاطر سے یہ کام کرتے ہیں بلکہ ان کا انفاق بادل نخواستہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد ایک شبہ کا ازالہ بھی کیا گیا کہ اگر منافقین اللہ تعالیٰ کے ہاں اتنے ہی برے ہیں تو پھر پروردگار نے انہیں مال و دولت اور اولاد کی فروانی کیوں عطا کر رکھی ہے۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ دنیا کا مال ان کے حق میں بہتر نہیں ہے بلکہ یہ ان کے لیے باعث عذاب ہے جس کا وبال آخرت میں بہت زیادہ ہوگا۔ پھر اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ منافق لوگ جھوٹی قسمیں کھا کر تمہیں باور کرانا چاہتے ہیں کہ یہ تمہاری جماعت کے آدمی ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے وہ تو جہاد سے ڈرنے والے لوگ ہیں۔ اگر انہیں کوئی جائے پناہ ، غار یاسر چھپناے کی کوئی جگہ میسر آجائے تو دوڑ کر اس کی طرف چلے جائیں ، لہٰذا یہ لوگ جماعت المسلمین کے ممبر نہیں ہوسکتے پھر فرمایا کہ بعض لوگ پیغمبر خدا پر طعن کرتے تھے اور اگر صدقات یا غنیمت میں سے انہیں کچھ مل جاتا تو راضی ہوجاتے ورنہ ناراض رہتے ہیں حالانکہ ان کی سچائی کا تقاضا یہ تھا کہ جو کچھ اللہ کے رسول کے ہاتھوں مل جاتا اسے لے لیتے اور اگر نہ ملتا تو خاموش رہتے۔ اس ضمن میں وہ خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے کہتے کہ اگر نہیں ملا تو کوئی بات نہیں اگر اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے مطابق چاہیگا تو آئندہ دلا دے گا۔ مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا جو کہ ان کی منافقت کی دلیل ہے۔ مسائل زکوٰۃ وصدقات : لفظ صدقہ زکوٰۃ اور نفلی صدقات سب پر بولا جاتا ہے محتاجوں کو اللہ کی راہ میں دنیا دینے والے کے ایمان کی دلیل ہوتی ہے اسی لیے (آیت) ” والصدقۃ برھان “ بھی کہا گیا ہے ، تا ہم قرآن پاک کے اس مقام پر صدقہ سے مراد فرض صدقہ یعنی زکوٰۃ ہے۔ نفلی صدقات تو مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں کو بھی دیے جاسکتے ہیں اور قرآن پاک میں اس کی تصریح موجود ہے۔ مگر واجبی صدقات یعنی زکوٰۃ ، نذرانہ اور صدقہ فطر صرف مسلمانوں کے حق ہیں۔ ان میں سے غیر مسلموں کو نہیں دیا جاسکتا اس سلسلہ میں حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے (1۔ مسلم ص 36 ، ج 1) (فیاض) ” توخذ من اغنیاء ھم وترد الی فقرآئھم “ یعنی زکوٰۃ کا مال اہل ایمان کے دولتمندوں سے لیا جاتا ہے اور انہی کے غربا میں تقسیم کیا جاتا ہے اگر زکوٰۃ کا مال کسی ہندو ، سکھ ، عیسائی ، دہریہ یا فاسد العقیدہ آدمی کو دیا جائے گا۔ تو زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔ زکوٰۃ کے مصارف آٹھ مصارف آج کی آیت کریمہ میں بیان کیے گئے ہیں اور یہ مدات اللہ تعالیٰ نے خود مقرر کی ہیں لہٰذا ان میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی۔ حتی کہ پیغمبر خدا ﷺ کو بھی ان مصارف میں ردوبدل کرنے کا اختیار نہیں ایک حدیث میں آتا ہے کہا للہ نے صدقات کو کسی نبی یا غیر نبی کی مرضی سے تقسیم کرنے کا حکم نہیں دیا۔ چناچہ کوئی غنی آدمی ان مدات میں داخل نہیں اور نہ وہ زکوٰۃ لینے کا حقدار ہے۔ حضور ﷺ کا واضح فرمان ہے (آیت) ” لا تحل الصدقٰت لغنی ولا لذی مرۃ سوی “ ( مسند احمد ، نسائی ، ابو دائود ، ترمذی وغیرہ) صدقہ یعنی زکوٰۃ کسی غنی ( صاحب نصاب) یا جسمانی طور پر مضبوط آدمی کے لیے حلال نہیں ہے جو شخص خود صاحب مال ہے وہ تو ظاہر ہے کہ زکوٰۃ کا حقدار نہیں ، البتہ اگر کوئی غریب آدمی بھی جسمانی لحاظ سے تندرست و توانا ہے ، محنت کرسکتا ہے تو وہ بھی مستحق نہیں ہے۔ دو شخص حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور زکوٰۃ کے مال سے حصہ طلب کیا۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا ” ان شئتما اتیتکما ولا حظ فیھا لغنی ولا لقوی مکتسب “ اگر چاہو تو میں تم دونوں کو دے دوں مگر یاد رکھو ! کہ اس میں کسی غنی اور ایسے مضبوط آدمی کے لے حصہ نہیں ہے جو خود کمائی کرسکتا ہو۔ ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا سوال کرنا جائز نہیں مگر تین قسم کے آدمیوں کو اجازت ہے۔ پہلا آدمی وہ ہے ” تحمل حمالۃ “ کہ اس پر بوجھ پڑگیا ہے ، کسی کی ضمانت دے کر پھنس گیا ہے ، تو ایسی صورت میں اپنے بوجھ کو اتارنے کے لیے زکوٰۃ کا مال لے سکتا ہے ۔ دوسرا شخص وہ ہے جسے کوئی حادثہ پیش آگیا ہے جس کی وجہ سے اس کا مال ضائع ہوگیا ہے اور وہ محتاج ہوگیا ہے مثلا طوفان آگیا ہے یا زلزلہ آیا ہے یا کسی بیماری کی وجہ سے جانور ضائع ہوگئے یا باغات اور فصل تباہ ہوگئی ہے تو ایسے شخص کو بھی سوال کرنے کی اجازت ہے۔ فرمایا تیسرا شخص وہ ہے جسے فاقہ آگیا ہے۔ اس کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں۔ اگر اس کی قوم کے تین آدمی گواہی دیں کہ اس شخص کو واقعی فاقے آرہے ہیں تو اس کے لیے بھی سوال کرنا حلال ہے یہ ایک عام اصول ہے کہ کسی صاحب نصاب آدمی کو زکوٰۃ یا صدقے کا مال کھانا جائز نہیں۔ البتہ پانچ صورتیں ایسی ہیں جن میں زکوٰۃ وصدقات کا مال غنی آدمی کے لے بھی حلال ہے ۔ پہلا شخص وہ ہے جو زکوٰۃ کی وصولی پر متعین ہے۔ وہ کارکردگی کے معاوضے کے طور پر زکوٰۃ کے مال میں سے لے سکتا ہے۔ دوسرا شخص وہ ہے جو زکوٰۃ کا مال کسی مالک سے خرید لیتا ہے۔ کسی مستحق کو مال ملا اور اس نے آگے بیچ دیا تو اب خریدنے والا اس کو استعمال کرسکتا ہے۔ تیسرا آدمی وہ ہے جسے کوئی تاوان پڑگیا ہے ، اگرچہ وہ خود صاحب نصاب ہے مگر اس تاوان کی ادائیگی کے لیے زکوٰۃ کا مال لے سکتا ہے۔ چوتھا آدمی وہ ہے جو اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلتا ہے اگرچہ وہ آسودہ حال ہے مگر جہاد میں نکلنے کی وجہ سے مال زکوٰۃ وصول کرسکتا ہے۔ پانچواں آدمی مسافر ہے جس کا توشہ راستے میں ختم ہوگیا یا کوئی نقصان ہوگیا ہے تو وہ بھی زکوٰۃ میں سے لے سکتا ہے۔ اگرچہ اس کے گھر میں کافی مال موجود ہے۔ زکوٰۃ کی تقسیم کا یہ بھی ایک مسلمہ اصول ہے کہ بنی ہاشم یہ مال حاصل نہیں کرسکتے۔ حضور ﷺ کا فرمان مبارک ہے ” ان الصدقۃ لا تحل لمحمد ولا لال محمد “ یعنی صدقات وزکوٰۃ کا مال نہ محمد ﷺ کے لیے حلال ہے اور نہ آپ کی آل کے لیے۔ فرمایا ” انما ھی اوساخ الناس “ یہ تو لوگوں کی میل کچیل ہوتی ہے ، لہٰذا یہ محمد اور آلِ محمد کے لیے جائز نہیں۔ اہل بیت میں یہ خاندان شمار ہوتے ہیں یعنی حضرت عباس ؓ کی اولاد ، حضرت علی رض ، حضرت جعفر رض ، حضرت عقیل ؓ اور حارث ابن نوفل کی اولاد ان کے لیے زکوٰۃ وصدقات کا مال حلال نہیں ہے۔ مسئلہ تملیکِ مال : امام ابوحنیفہ (رح) ، امام مالک (رح) اور بعض دیگر علمائے احناف اور فقہاے کرام کہتے ہیں کہ اس آیت میں مستحقین کے نام سے پہلے جو حرف لام آیا ہے یعنی (آیت) ” للفقرآء والمسٰکین۔۔ الخ “ یہ متعلقہ مستحقین کی تملیک کے لیے ہے اور مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو مال زکوٰۃ وصدقات دیا جائے اسے اس مال کا مالک بنانا ضروری ہے ورنہ ادائیگی کا حق ادانہ ہوگا۔ تملیک کا معنی کسی چیز کا مالک بنا دینا اور حقیقی ملکیت اس وقت تک حاصل نہیں ہوتی جب تک کوئی چیز کسی کے قبضے میں نہ چلی جائے۔ لہٰذا زکوٰۃ کا مال نقدی کی صورت میں ہو یا جنس یا جانوروں کی صورت میں اس کا مستحق زکوٰۃ کے قبضے میں جانا ضروری ہے۔ اسی لیے فقہائے کرام نے اس سے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ زکوٰۃ وصدقات کا مال کسی میت کے کفن دفن کے لیے استعمال نہیں ہو سکتا کیونکہ مرنے والے کو اس کا مالک نہیں بنایا جاسکتا ، جو اسے اپنی مرضی کے مطابق خرچ یا استعمال کرنے پر قادر ہو۔ اسی طرح یہ مال نہ مسجد پر صرف ہو سکتا ہے ، نہ مدرسے کی عمارت پر ، نہ ہسپتال یا مسافر خانہ تعمیر کرنے پر اور نہ ہی دوسرے رفاعہ عامہ کے کام پر ، کہ ایسی صورت میں کسی مستحق زکوٰۃ کو اس مال کا مالک نہیں بنایا جاسکتا۔ لہٰذا تقسیم زکوٰۃ کے سلسلے میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ یہ مسئلہ جمہور فقہا کے نزدیک مسلم ہے۔ نصاب وشرح زکوٰۃ : اب سوال یہ ہے کہ کم از کم کتنے مال پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے اس کے لیے سنت بنوی سے یہ اصول وضع ہوتا ہے کہ کوئی مال جس قدر آسانی سے حاصل ہوتا ہے اس پر زکوٰۃ کی شرح زیادہ ہے ، اور جو مال جتنا محنت سے حاصل ہوتا ہے اس پر زکوٰۃ کی شرح کم ہے۔ باغات اور غلے کی پیداوار کا نصاب پانچ وسق ہے جو کہ تقریبا تیس من بنتا ہے۔ امام مالک رح ، امام شافعی رح ، امام احمد (رح) وغیرہ ہم کے نزدیک اس سے کم پیداوار زکوٰۃ نہیں ہے۔ تا ہم ابن عباس رض ، زید بن علی ؓ اور امام ابوحنیفہ (رح) کی رائے یہ ہے کہ پیداوار کی کمی بیشی کا کچھ لحاظ نہیں ، زکوٰۃ ہر حالت میں واجب ہے۔ یہ ایک اصولی بحث ہے اور فقہ کی کتب میں دیکھی جاسکتی ہے۔ بہرحال اگر پیداوار بغیر مشقت کے حاصل ہوتی ہے جیسے زمین بارانی ہے اور اس میں کنوئیں یا ٹیوب ویل سے پانی نہیں دیا جاتا تو شرح زکوٰۃ کل پیداوار کا دسواں حصہ ہوگا۔ اور اگر کھیتی یا باغ کے لیے پانی کا انتظام کاشتکار کو خود کرنا پڑتا ہے تو پیداوار کا بیسواں حصہ زکوٰۃ ہوگی۔ اگر کسی کی زمین میں کوئی کان ہے اور وہ ان سے وصول ہونے والے مال کے لیے کوئی محنت نہیں کرنا پڑتی تو ایسے مال پر پانچواں حصہ (خمس) زکوٰۃ ادا کی جائیگی۔ چاندی کا نصاب دو سو درہم یعنی سارھے باون تولے کے برابر ہے۔ جب اتنا مال موجود ہو تو اس پر چالیسواں حصہ زکوٰۃ فرض ہے۔ اسی طرح سونے کا نصاب بیس مثقال یعنی ساڑھے سات تولے ہے جب کسی کے پاس سونا اس مقدار کو پہنچ جائے تو چالیسواں حصہ زکوٰۃ ادا کریگا۔ سکہ رائج الوقت بھی جب چاندی کے نصاب کو پہنچ جائے یعنی ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر اگر کسی کے پاس کرنسی نوٹ موجود ہیں تو اس پر اڑھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ فرض ہوجاتی ہے۔ چرنے والے جانوروں میں اگر کسی کے پاس پانچ اونٹ ہیں تو اسے سالانہ ایک بکری زکوٰۃ ادا کرنا ہوگی۔ دس اونٹ پر دو ، پندرہ پر تین اور بیس اونٹ پر چاربکریاں ادا کریگا۔ البتہ جب اونٹوں کی تعداد پچیس تک پہنچ جائے تو ایک اونٹ ادا کرنا ہوگا جسے ایک سال مکمل ہو کر دوسرا سال شروع ہوچکا ہو ، اسی طرح گائے بیل اور بھینس وغیرہ کا نصاب تیس ہے۔ جب ریوڑ اس تعداد کو پہنچ جائے تو ایک گائے یا بھینس ادا کرنا ہوگی۔ بھیڑ بکری کا نصاب چالیس ہے ہر چالیس میں ایک بھیڑ بکری ادا کی جائیگی۔ زکوٰۃ کے آٹھ مصارف : گذشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ زکوٰۃ کی تقسیم کے سلسلہ میں منافقین اعتراض کرتے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں زکوٰۃ کے آٹھ مصارف بیان کردیے ہیں تا کہ آئندہ کسی کو اعتراض کی گنجائش نہ رہے گویا زکوٰۃ کی تقسیم کا کام اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اور اپنے نبی کو بھی اختیار نہیں دیا کہ وہ مرضی سے تقسیم کردیں۔ فقر اور مساکین : ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” انما الصدقٰت للفقرآء والمسٰکین “ بیشک صدقات (زکوٰۃ) فقراء اور مساکین کے لیے ہے امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ فقیر وہ شخص ہے جو بالکل نادار ہو حتی کہ اس کے پاس ایک وقت کا کھانا بی نہ ہو۔ اور مسکین وہ ہے جس کے پاس تھوڑا بہت ہے مگر وہ اس کی جائز ضرورت کے لے ناکافی ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اس کی تعبیر الٹ کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ فقیر وہ ہے جس کی کم از کم ضروریات بھی پوری نہ ہوتی ہوں۔ اگرچہ اس کے پاس کچھ نہ کچھ ہے مگر اس کی گزر اوقات ٹھیک طریقے سے نہیں ہوتی۔ اور مسکین وہ ہے جس کے پاس بالکل کچھ نہ ہو یعنی اسے ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہ ہو۔ سورة بلد میں آتا ہے (آیت) ” اومسکینا ذا متربۃ “ یعنی مسکین جو بالکل مٹی میں ملا ہوا ہو ، اس کے پاس کچھ نہ ہو بہرحال یہاں پر فرمایا کہ زکوٰۃ کے حقدار پہلے نمبر پر فقراء اور دوسرے نمبر پر مساکین ہیں۔ مال زکوٰۃ ان کو ادا کیا جائے گا۔ عاملین زکوٰۃ : تیسرے نمبر پر فرمایا (آیت) ” والعملین علیھا “ یعنی وہ لوگ جو نظام زکوٰۃ اور اس کی تحصیل کا کام کرتے ہیں۔ زکوٰۃ موقع پر وصول کرنے والے یا اس کے لیے دیگر انتظام کرنے والے ملازمین وغیرہ اس مال سے معاوضہ وصول کرنے کے حقدار ہیں بشرطیکہ وہ بنو ہاشم کے خاندان سے نہ ہوں۔ مئولفۃ القلوب : فرمایا (آیت) ” والمولفۃ قلوبھم “ چوتھے نمبر پر مستحقین زکوٰۃ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو الفت دلائی جاتی ہے۔ بعض لوگ اسلام تو لے آئے ہیں مگر جن کے دلوں کو الفت دلائی جاتی ہے۔ بعض لوگ اسلام تو لے آئے ہیں مگر مالی لحاظ سے کمزور ہیں۔ ایسے لوگوں کی تالیف قلوب کے لیے بھی زکوٰۃ سے دیا جاسکتا ہے تا کہ کوئی دوسرے مذہب والا اسے لالچ دیکر اپنی طرف مائل نہ کرسکے۔ حضور ﷺ کے زمانہ مبارک میں اس مد سے ان لوگوں کو دے دیا جاتا تھا ، جن کے اسلام لانے کی توقع ہوتی تھی۔ بعد میں جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو قوت عطا فرما دی۔ تو پھر ایسے لوگوں کو نہیں دیا جاتا تھا۔ البتہ جو شخص اسلام لا چکا ہے اور کمزور ہے اس کی حوصلہ افزائی کے لیے مال زکوٰۃ میں دیا جاتا رہا ہے۔ آزادی غلاماں : زکوٰۃ کا پانچواں مصرف (آیت) ” وفی الرقاب “ گردنوں کو چھڑانا ہے۔ یعنی غلاموں کو آزاد کرانے کے لیے بعض مکاتب غلام ہوتے تھے کہ اتنا مال کما کر دے دو تو تم آزاد ہو۔ ایسے غلاموں کی مدد بھی مال زکوٰۃ سے کی جاسکتی ہے تا کہ وہ مقررہ رقم ادا کر کے آزادی کی نعمت سے بہرو ورہو سکیں۔ بعض فرماتے ہیں کہ اس مد سے مستقل غلاموں کو بھی خرید کر آزاد کیا جاسکتا ہے۔ یا اگر کوئی قیدی ہوں تو ان کا فدیہ ادا کر کے انہیں رہائی دلائی جاسکتی ہے۔ یہ سب گردن چھڑانے کی مد میں شامل ہیں۔ مقروض : فرمایا (آیت) ” والغارمین “ مقروض لوگوں کے لیے یا تاوان بھرنے والوں کو بھی یہ مال دیا جاسکتا ہے کسی شخص پر کسی وجہ سے تاوان پڑگیا ہے یا کوئی شخص کسی حادثے کا شکا ر ہوگیا ہے ، یا کسی کی ضمانت دے کر پھنس گیا ہے تو ایسے لوگوں کی امداد بھی زکوٰۃ کے مال سے کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک آدمی کے پاس دس ہزار روپے موجود ہیں مگر اس نے گیارہ ہزار وروپیہ قرض دیان ہے تو اس کے قرض کی بیباقی کے لیے اس کی مدد کی جاسکتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ قرض کسی جائز مقصد کے لیے لیا گیا ہو اور پھر اس کی ادائیگی کی طاقت نہ رکھتا ہو۔ اگر فضول رسم و رواج کی ادائیگی یا کسی حرام کام جوا وغیرہ کے لیے قرضہ لیا ہے تو ایسے شخص کی امداد نہیں کی جائیگی۔ یہ زکوٰۃ کی چھٹی مدا ہے۔ فی سبیل اللہ : زکوٰۃ کی ساتویں مد کے متعلق فرمایا (آیت) ” وفی سبیل اللہ اور اللہ کے راستے میں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس مد میں تین قسم کے لوگ آتے ہیں ایک تو وہ غازی ہیں جو اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلتے ہیں۔ اگر وہ محتاج ہیں تو انہیں مال زکوٰۃ میں سے دے دو ۔ دوسری قسم کا وہ آدمی ہے جو حج کے لیے نکلا مگر راستے میں کوئی حادثہ پیش آگیا ، چوری ہوگئی یا کسی اور طریقے سے مال ضائع ہوگیا اور اس کا خرچہ ختم ہوگیا ہے۔ ایسے شخص کو منقطع الحاج کہتے ہیں یہ بھی زکوٰۃکا مال لے سکتا ہے۔ تیسرے نمبر پر دینی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء ہیں جو حصول تعلیم کی وجہ سے کوئی کاروبار نہیں کرسکتے۔ یہ لوگ (آیت) ” الذین احصروا فی سبیل اللہ “ کے تحت غازیوں میں ہی شمار ہو کر زکوٰۃ کے مستحق شمارہوتے ہیں۔ مسافر : زکوٰۃ کے مستحقین میں سے آٹھواں نمبر (آیت) ” وابن السبیل “ یعنی مسافروں کا ہے۔ کوئی ایسا مسافر جس کا سفر خرچ ختم ہوگیا ہے اگرچہ گھر میں اس کا کافی مال موجود ہے مگر اس سے یہ نہیں کہا جائیگاتو اپنے گھر سے مال منگوا لے بلکہ وہ مال زکوٰۃ کا مستحق ہے لہٰذا اس کی مدد کی جائیگی۔ اللہ تعالیٰ نے زکوۃ کے یہ آٹھ مصارف بیان فرمائے ہیں کہ مال زکوٰۃ ان مدات پر صرف ہو سکتا ہے ، اس کے علاوہ کسی دوسری جگہ زکوٰۃ کی رقم خرچ نہیں کی جاسکتی۔ فرمایا (آیت) ” فریضۃ من اللہ “ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیا گیا ہے یہ کسی انسان کا وضع کردہ نظام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ، حکمت اور مصلحت کے تحت یہ تقسیم کردی ہے۔ ان مدات میں کسی کو دخل اندازی کی اجازت نہیں حتی کہ اللہ کا نبی بھی اپنی مرضی سے زکوٰۃ تقسیم نہیں کرسکتا۔ بلکہ اس کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کے اس قانون کی پابندی لازمی ہے۔ فرمایا (آیت) ” واللہ علیم حکیم “ اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ وہ ہر ظاہر و باطن سے واقف ہے۔ وہ ہر ایک کا غنا ، استحقاق ، غربت وغیرہ کو جانتا ہے۔ اور وہ جو بھی فیصلہ کرتا ہے اس میں حکمت پوشیدہ ہوتی ہے خواہ انسانوں کو اس کی سمجھ آئے یا نہ آئے حکیم خدا تعالیٰ کی صفت ہے لہٰذا اس کی حکمت کے تحت دیے گئے احکام کو تسلیم کرنا ہی عین سعادت ہے۔ خدائی احکام میں اپنی عقل کو دخل نہیں کرنا چاہیے۔
Top