Mualim-ul-Irfan - At-Tawba : 75
وَ مِنْهُمْ مَّنْ عٰهَدَ اللّٰهَ لَئِنْ اٰتٰىنَا مِنْ فَضْلِهٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان سے مَّنْ : جو عٰهَدَ اللّٰهَ : عہد کیا اللہ سے لَئِنْ : البتہ۔ اگر اٰتٰىنَا : ہمیں دے وہ مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اپنا فضل لَنَصَّدَّقَنَّ : ضرور صدقہ دیں ہم وَلَنَكُوْنَنَّ : اور ہم ضرور ہوجائیں گے مِنَ : سے الصّٰلِحِيْنَ : صالح (جمع)
اور بعضے ان ( منافقین) میں سے وہ ہیں جنہوں نے عہد کیا ہے اللہ کے ساتھ کہ اگر دیگا وہ ہمیں اپنے فضل سے تو ہم ضرور صدقہ خیرات کریں گے اور البتہ ہم ضرور ہوں گے نیکوں میں سے
ربط آیات : جہاد کی فرضیت اور پھر جہاد سے گریز کرنے والے منافقین کی مذمت بیان کی گئی۔ پھر منافقین کے خصائل اور ان کے انجام کا ذکر ہوا۔ اس کے بعد اہل ایمان کے اوصاف جمیلہ اور ان کی کامیابی کا بیان ہوا۔ اللہ نے کافروں کے ساتھ تلوار سے اور منافقوں کے ساتھ زبان کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم دیا ۔ فرمایا ان کے عیوب کو ظاہر کیا جائے اور زبانی طور پر ڈانٹ ڈپٹ اور سختی کی جائے تا کہ یہ لوگ جماعت المسلمین سے الگ ہوجائیں یا تائب ہو کر سچے مسلمان بن جائیں۔ اگر منافقین کافروں کے ساتھ رل مل جائیں گے تو پھر کافروں کی طرح ان کے خلاف بھی جہاد بالسیف جائز ہوجائیگا گذشتہ آیات میں بھی بعض خاص منافقوں کا ذکر ہوچکا ہے۔ اب یہاں بھی بعض خاص منافقوں کی بات ہو رہی ہے اور اس ضمن میں بعض اصولی باتیں بھی سمجھائی گئی ہیں۔ شانِ نزول : مفسرین کرام (1۔ ابن کثیر ص 374 ، ج 2) بیان کرتے ہیں کہ انصار میں ایک شخص (2۔ یہ ثعلبہ بدری صحابی نہیں ہ۔ ملاحظہ ہو روح المانی ص 143 ، بلکہ ثعلبہ کئی آدمیوں کا نام ہے۔ ملاحظہ ہو الاصابہ ص 199 ج 1) (فیاض) ثعلبہ ابن حاطب تھا ، اس نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور ! فقر کی وجہ سے پریشانی میں مبتلا رہتا ہوں ، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے غنی کر دے حضور ﷺ نے فرمایا کہ عام اصول یہ ہے ” ما قل وکفی خیر ممما کثر والھی “ جو تھوڑی چیز کفایت کر جائے وہ اس زیادہ سے بہتر ہے جو انسان کو غفلت میں ڈال دے۔ آپ نے اس شخص کو سمجھایا کہ مال و دولت میں فراوانی طلب نہ کرو کیونکہ انسان مال کے حقوق ادا نہ کر کے غفلت میں مبتلا ہوجاتے ہیں مگر ثعلبہ نے وعدہ کیا کہ میں مال کے سارے حقوق ادا کروں گا۔ صدقہ خیرات کیا کروں گا ، لہٰذا آپ ضرور میرے لیے خوشحالی کی دعا فرمائیں۔ حضور ﷺ نے اپنی مثال پیش کی کہ دیکھو ! میں خودقناعت پسند ہوں ، دولت کی خواہش نہیں کرتا ، لہٰذا تم بھی اس کی طالب نہ کرو مگر اس شخص نے اصرار ہی کیا۔ حضور ﷺ نے اس کے حق میں دعا فرمائی جو رب العزت کی بارگاہ میں قبول ہوئی اور تھوڑے ہی عرصہ میں ثعلبہ کے پاس بھڑ بکریوں کے کئی ریوڑ ہر گئے۔ پھر یہ شخص اپنے وعدے پر قائم نہ رہا اور اللہ نے اسے سخت ذلیل کیا۔ آج کی آیات کا مصداق یہی شخص ہے۔ انفاق سے اعراض : ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ومنھم من عھد اللہ “ ان منافقین میں سے بعض لوگو ایسے ہیں جنہوں نے اللہ کے ساتھ عہد کیا ہے (آیت) ” لئن اتنا من فضلہ لنصدقن “ اگر اللہ دے گا ہمیں اپنے فضل سے تو ہم ضرور صدقہ خیرات کریں گے (آیت) ” ولنکونن من الصلحین “ اور نیکی کرنے والوں میں سے ہوں گے۔ جب ثعلبہ کی بھیڑ بکریوں میں بہت اضافہ ہوگیا تو اس کا شہر میں رہنا مشکل ہوگیا اور وہ شہر چھوڑ کر گائوں میں چا بسا ، جوں جوں اس کا مال بڑھتا گیا اور اس کی مصروفیت میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ پہلے رات کی نمازیں چھوٹیں اور دن کے وقت مسجد میں آتا رہا۔ پھر وہ بھی جاتی رہیں اور صرف جمعہ رہ گیا اور پھر رفتہ رفتہ جمعی کی شرکت بھی ختم ہوگئی۔ جب زکوٰۃ کی ادائیگی کا وقت آیا تو حضور ﷺ نے اس کے پاس آۃ دمی بھیجے۔ ثعلبہ کی نیت خراب ہوچکی تھی اور وہ بخوشی زکوۃ ۃ ادا کرنے کے لیے تیار نہ تھا ، کہنے لگا ” ما اری الزکوٰۃ الا الجزیۃ “ زکوٰۃ نہیں مجھے تو جزیہ معلوم ہوتا ہے جو زبردستی وصول کیا جا رہا ہے اس پر ( شروع میں چالیس میں ایک پھر ایکسواکیس میں دو پھر دو سو ایک میں تین پھر چار سو میں چا ر اور پھر) ہر سو بھیڑ بکریوں میں سے ایک بھیڑ بکری زکوٰۃ نکلتی تھی مگر اس شخص نے انکار کردیا واپس آکر جب وصول کنند گان زکوٰۃ نے یہ واقعات حضور ﷺ کے گوش گزار کئے تو آپ نے تین دفعہ فرمایا ” ویحک یا ثعلبۃ “ اے ثعلبہ ! تجھ پر افسوس ہے کبھی تیری تنگی کی یہ حالت تھی کہ فراخی رزق کے لیے اصرار کر کے دعا کرائی تھی اور جب اللہ تعالیٰ نے تجھے مال و دولت عطا کیا ہے تو تو اس مال میں سے اللہ کی راہ میں دینے سے انکار کر گیا ہے پھر جب اس شخص کو حضور ﷺ کی ناراضگی کا علم ہوا تو زکوۃ کا مال لے کر خود حضور کی خدمت میں حاضر ہوا مگر آپ نے اس کا مال لینے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ خدا تعالیٰ نے تمہاری زکوٰۃ وصول کرنے سے منع فرما دیا ہے۔ یہ سن کر اسے بڑی شرمندگی ہوئی بڑا واویلا کیا حتی کہ اپنے سر پر مٹی ڈالی مگر حقیقت یہ ہے کہ منافق ہی تھا ، یہ سب کچھ اس نے دکھاوے کے لیے کیا تھا اور سچے دل سے ایمان نہیں لایا تھا۔ جب حضور نبی کریم (علیہ السلام) اس دنیا سے رخصت ہوگئے تو یہ شخص پھر زکوٰۃ کا مال لے کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس آیا مگر انہوں نے بھی یہ مال لینے سے انکار کردیا۔ فرمایا جب حضور ﷺ نے تجھ سے مال قبول نہیں کیا تو میں بھی نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد حضرت عمر فاروق ؓ کے زمانے میں اس نے پھر زکوٰۃ ادا کرنے کی کوشش کی مگر انہوں نے بھی اس کا مال قبول نہ کیا۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ شخص حضرت عثمان ؓ کے زمانہ خلافت میں مرگیا ، اس نے توبہ نہیں کی اور نہ ہی اس سے زکوٰۃ وصول کی گئی و اس دنیا سے ناکام ونامراد ہی گیا۔ اس آیت کریمہ میں جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ثعلبہ واحد شخص نہیں جو اپنے نفاق اور عدم ادائیگی زکوٰۃ کی وجہ سے ناکام ہوا بلکہ اس قسم کے اور لوگ بھی تھے۔ اسی لیے فرمایا کہ بعض ان میں سے وہ ہیں کہ جنہوں نے عہد کیا کہ اگر اللہ انہیں اپنے فضل سے دے گا تو وہ صدقہ خیرات کریں گے اور نیکو کاروں میں ہوں گے مگر ہوا یہ کہ (آیت) ” فلما اتھم من فضلہ “ جب اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کیا (آیت) ” بخلوا بہ “ تو اس سے بخل کر گئے اور فرائض کی ادائیگی سے بھی انکار کردیا۔ (آیت) ” وتولوا وھم معرضون “ اور وہ پھرگئے اس حال میں کہ روگردانی کرنے والے ہیں۔ انہوں نے سچے دل سے ایمان لانے سے اعراض کیا اور مال کے حقوق ادا کرنے میں بخل کیا۔ نفاق کی پختگی : اس بخل کا کیا نتیجہ نکلا ؟ (آیت) ” فاعقبھم نفاقا فی قلوبھم “ پس اللہ نے پیچھے رکھ دیا نفاق کا اثر ان کے دلوں میں یعنی ان کے دلوں میں نفاق ڈال دیا۔ اعقب کی ضمیر جب فعل بخل کی طرف لوٹتی ہے تو اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اس بخل نے ان کے نفاق کو پختہ کردیا (آیت) ” الی یوم یلقونہ “ اس دن تک جب وہ اللہ سے ملیں گے یعنی مرتے دم تک ان کے دلوں میں نفاق سزا کے طور پر راسخ ہوگیا۔ معلوم ہوا کہ جس کو اللہ تعالیٰ اپنا فضل عطا ر کرتا ہے ، پھر وہ ناشکری کرتا ہے یا بخل کرتا ہے ، حقوق ادا نہیں کرتا ، فرائض پورے نہیں کرتا تو خطر ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے دل میں تغیر پیدا کر دے۔ دوسرے مقام پر آتا ہے (آیت) ” کلا بل ران علی قلوبھم ما کانوا یکسبون “ (المطففین) ان کی بری کمائی یعنی گناہوں کی وجہ سے ان کے دل زنگ آلود ہوجاتے ہیں دل سیاہ ہوجاتے ہیں اور سخت ہوجاتے ہیں جو انتہائی قساوت قلبی کی علامت ہے اللہ نے بنی اسرائی کی مثالیں بیان کی ہیں کہ ان کے دل معکوس ہوگئے۔ اور ایسے سخت ہوگئے کہ ان میں رقت پیدا ہی نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے وہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہیں۔ انبیاء کو ایذا پہنچاتے ہیں اور طرح طرح کی بداعمالیاں کرتے ہیں اور پھر غضب الہٰی کے مستحق بنتے ہیں ، خدا تعالیٰ کی طرسے ان جر لعنت بھی برستی ہے۔ یہ تمام نتائج روگردانی ، بد عملی اور وعدہ خلافی کے ہیں۔ انہوں نے اللہ سے وعدہ کیا کہ اگر مال ملے گا تو صدقہ کریں گے مگر جب آسودگی آگئی تو اس وعدے کو بھول گئے اور مرتے دم تک نفاق میں مبتلا رہے۔ وعدہ خلافی اور جھوٹ : حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ منافق کی علامت یہ ہے ” اذا وعدا خلف “ کہ جب وہ وعدہ کرتا ہے تو خلاف کرتا ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ ان کے دلوں میں نفاق اس وجہ سے راسخ ہوگیا (آیت) ” بما اخلفوا اللہ ما وعدوہ “ کہ انہوں نے اللہ سے وعدہ کیا اور پھر اس کی خلاف ورزی کی۔ اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے (آیت) ” ان العھد کان مسئولا “ قیامت کے دن وعدے کے متعلق باز پرس ہوگی۔ سورة مائدہ میں بھی گزر چکا ہے (آیت) ” اوفوا بالعقود “ اے ایمان والو ! اپنے عہد کو پورا کیا کرو کہ یہ بڑی اہم بات ہے۔ اگر وعدہ خلافی کرو گے تو دل میں نفاق بیٹھ جائے گا اور اس کا نتیجہ خطرناک نکلے گا۔ فرمایا ان کے دلوں میں نفاق کی پختگی ایک تو وعدہ خلافی کی وجہ سے ہوئی اور اس کی دوسری وجہ یہ ہے (آیت) ” وبما کانوا یکذبون “ کہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔ ظاہر ہے کہ جو وعدہ خلافی کرتا ہے وہ جھوٹ بھی بولتا ہے زبان سے کچھ کہتا ہے اور دل میں کچھ اور ہوتا ہے۔ جھوٹ بولنا بھی منافق کی علامت ہے حضور نے منافق کے متعلق فرمایا ” اذا حدث کذب “ جب وہ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے ، جب وعدہ کرتا ہے تو خلاف کرتا ہے اور جب جھگڑا ہوجائے تو گالی گلوچ پر اتر آتا ہے۔ حضور نے منافق کی نشانیاں بیان فرمائیں۔ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے دو چیزوں کو بیان فرمایا ہے جن کی وجہ سے منافقین کو سزا ملی۔ ان کے دلوں میں نفاق اس لیے راسخ ہوا کہ انہوں نے وعدہ خلافی کی اور بخل کیا۔ اور بخل بدترین روحانی بیماری ہے۔ حضور نے فرمایا ” ای داء ادواء من البخل “ بخل سے بڑی بیماری کونسی ہے بخیل آدمی نہ اپنے اوپر خرچ کرتا ہے اور نہ دوسروں کا حق ادا کرتا ہے گذشتہ آیات میں منافقین کی یہ صفت بھی بیان ہوچکی ہے۔ کہ (آیت) ” یقبضون ایدیھم “ وہ اپنے ہاتھوں کو سیکڑتے ہیں۔ بہر حال یہاں فرمایا کہ انہوں نے وعدے کا خلاف کیا اور دوسری بات یہ کہ جھوٹ بولا جس کی وجہ سے ان کے دلوں میں نفاق پختہ ہوگیا۔ خدا تعالیٰ عالم الغیب ہے : اللہ تعالیٰ نے منافقین کو تنبیہ بھی فرمائی یہ (آیت) ” الم یعلموا ان اللہ یعلم سرھم ونجوھم “ کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں ہوا کہ بیشک اللہ تعالیٰ ان کے رازوں کو جانتا ہے۔ ان کا کوئی بھید اللہ سے پوشیدہ نہیں۔ اور وہ اللہ تعالیٰ ان کی پوشیدہ سرگرمیوں کو بھی جانتا ہے (آیت) ” وان اللہ علام الغیوب “ اور بیشک اللہ تعالیٰ تمام غیبوں کا جاننے والا ہے عالم الغیب ہونا اللہ تعالیٰ کی صفت مختسہ ہے۔ اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہے۔ سورة مائدہ کے آخر میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ان سے ان کی امت کے متعلق سوال کریں گے کہ کیا تم نے لوگون سے کہا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو ، تو عیسیٰ (علیہ السلام) جواب دیں گے ، اے مولا کریم ! تیری ذات پاک ہے ، میں ایسی بات کیسے کرسکتا ہوں جس کا مجھے حق نہیں پہنچتا۔ اگر میں نے کوئی ایسی بات دنیا میں کی ہے تو تو اسے جانتا ہے کیونکہ (آیت) ” انک انت علام الغیوب “ تو ہی تمام غیبوں کا جاننے والا ہے بہرحال منافقوں کے ارادے ، عزائم ، خفیہ اجلاس ، مشورے اور بھیدسب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں۔ منافقوں کو یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہیے۔ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے بخیل منافقوں کی مذمت بیان فرمائی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو کوئی بھی بخل کریگا یا وعدہ خلافی کرے گا تو اس کا نتیجہ وہی ہوگا جو منافقوں کا ہوا۔ دل میں کدورت پیدا ہوگی۔ نفاق برھے گا اور پھر وہ پختہ ہوجائے گا یہاں تک کہ مرتے دم تک اس سے چھٹکارا حاصل نہیں ہو سکے گا۔ یہ انسان کی ناکامی کی دلیل ہے آگے منافقین کی مزید خرابیوں کا ذکر آرہا ہے مسلمانوں کی جماعت کو اس سے عبرت حاصل کرنی چاہیے اور منافقوں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔
Top