Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 46
اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی الصَّدَقٰتِ وَ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ اِلَّا جُهْدَهُمْ فَیَسْخَرُوْنَ مِنْهُمْ١ؕ سَخِرَ اللّٰهُ مِنْهُمْ١٘ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَلْمِزُوْنَ : عیب لگاتے ہیں الْمُطَّوِّعِيْنَ : خوشی سے کرتے ہیں مِنَ : سے (جو) الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) فِي : میں الصَّدَقٰتِ : صدقہ (جمع) خیرات وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو لَا يَجِدُوْنَ : نہیں پاتے اِلَّا : مگر جُهْدَهُمْ : اپنی محنت فَيَسْخَرُوْنَ : وہ مذاق کرتے ہیں مِنْهُمْ : ان سے سَخِرَ : مذاق (کا جواب دیا) اللّٰهُ : اللہ مِنْهُمْ : ان سے وَلَهُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
وہ لوگ جو طعن کرتے ہیں خوشی خاطر سے صدقہ خیرات کرنے والے مومنین پر اور ان لوگوں پر جو نہیں پاتے مگر اپنی محنت۔ پس ٹھٹا کرتے ہیں ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے ٹھٹلے کا بدل دیگا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے
ربط آیات : منافقین کی مذمت کے سلسلے میں گذشتہ درس میں گزر چکا ہے ، کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بعض منافقین عہد کرتے ہیں مگر اس کو پورا نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل سے دیگا تو ہم صدقہ خیرات کریں گے مگر جب اللہ نے عطا کردیا تو انہوں نے بخل کیا۔ ان کی وعدہ خلافی اور کذب بیانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں نفاق کو پختہ کردیا اب یہ نفاق مرتے دم تک ان کے دلوں سے نہیں کھل سکے گا۔ اب آج کے درس میں جب حضور ﷺ نے لوگوں سے مالی تعاون کی اپیل کی تو ہر پکے سچے مسلمان نے اپنی حیثیت کے مطابق اس کار خیر میں حصہ لیا۔ مگر جن کے دلوں میں نفاق تھا۔ انہوں نے صدقہ کرنے والوں کو مختلف قسم کی طعن کا نشانہ بنایا۔ اس کے علاوہ منافقین کی مغفرت کے لیے دعا کا مسئلہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ صحابہ کی فراخدلی : جب حضور ﷺ نے غزوہ تبوک کے لیے اعلان فرمایا تو بعض آسودہ حال مسلمانوں نے خطیر مال آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ بعض کمزور صحابہ ؓ محنت مزدوری کر کے گزر اوقات کرتے تھے ، انہوں نے اپنی حیثیت کے مطابق مالی تعاون کیا۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ جلیل القدر صحابہ اور عشرہ مبشرہ ؓ میں سے ہیں۔ آپ کا تعلق قریش خاندان سے ہے۔ وسیع تجارت تھی اور اللہ نے بڑا مال و دولت عطا فرمایا تھا۔ مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں کہ وفات کے بعد آپ کی دوبیویاں پیچھے رہ گئیں۔ جب آپ کا ترکہ تقسیم ہوا تو آپ کی دونوں بیویوں کا کل مال کا آٹھواں حصہ ملا ان میں سے ایک بیوی نے اپنے حصہ کی جائداد اسی ہزار دینار میں فروخت کی ، یہ آٹھویں حصے کا نصف تھا۔ اسما الرجال کی کتابوں میں آتا ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے اپنے کسب حلال سے تیس ہزار غلام خرید کر آزاد کئے جو کہ بہت بڑا درجہ ہے۔ آپ نے غزوہ تبوک کے لیے چار ہزار دینار پیش کیے۔ اور حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ اس وقت میرے پاس کل آٹھ ہزار دینار تھے جن میں سے نصف گھر میں بال بچوں کے لیے چھوڑ آیا ہوں اور باقی نصف آپ کی خدمت میں پیش کردیئے۔ امراء صحابہ میں سے عاصم ابن عدی عجلانی ؓ کا تعلق انصار مدینہ سے تھا۔ آپ کے کھجوروں کے بہت سے باغات تھے۔ انہوں نے ایک موقع پر بطور صدقہ ایک سو وسوق کھجوریں حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کیں کہ یہ صدقہ ہے ، آپ اسے ضرورت مندوں میں تقسیم فرما دیں۔ یاد رہے کہ ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے اور ایک صاع چارسیر کا۔ اس حساب سے وہ کھجوریں چھو سو من تھیں دوسری طرف ابو عقیل انصاری ؓ تھے۔ انہوں نے بیوی سے پوچھا ، گھر میں کچھ ہے ؟ کہا کچھ بھی نہیں ، انہوں نے رات بھر مزدوری کر کے ایک صاع کھجوریں حاصل کی جن میں سے آدھی گھر میں دے دیں اور آدھی لا کر حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کردیں۔ منافقین کا طعن : اب منافقین نے اپنی خباثت کا اظہار شروع کیا۔ جن لوگوں نے بڑھ چڑھ کر مال پیش کیا۔ ان کے متعلق کہنے لگے کہ یہ لوگ ریاکاری کر رہے ہیں اور اپنا نام پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اور جس غریب آدمی نے صرف نصف صاع کھجوریں پیش کیں اس کے متعلق کہنے لگے کہ یہ لہو لگا کر شہیدوں میں نام لکھوانا چاہتا ہے۔ حضور ﷺ نے ابو عقیل سے فرمایا ، تم نے سخت محنت کر کے یہ کھجوریں مزدوری حاصل کی ہیں ، اس لیے یہ بڑی بابرکت ہیں ، انہیں پورے ڈھیر پر بکھیر دو تا کہ سارا مال بابرکت ہوجائے۔ بہرحال حضور ﷺ کے صحابہ ؓ میں نہ تو ریاکاری تھی اور نہ ان کی نیت میں کوئی خرابی تھی بلکہ وہ تو محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے حسب توفیق کرتے تھے مگر منافقین ان پر طرح طرح سے طعن کرتے تھے لہٰذا اللہ نے ان کی مذمت بیان فرمائی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” الذین یلمزون المطوعین من المومنین فی الصدقت “ وہ لوگ جو طعن کرتے ہیں۔ خوشی خاطر سے صدقہ خیرات کرنے والے مومنوں پر۔ (آیت) ” یلمزون “ لمز سے ہے جس کا معنی طعن یا عیب جوئی کرنے والے ہیں اور تطوع خوشی خاطر کو کہتے ہیں۔ تو مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اپنی رضا ورغبت کے ساتھ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ کوئی چار ہزار دینار دیتا ہے یا سو وسق کھجوریں پیش کرتا ہے ، سب اللہ کی رضا کے لیے کرتے ہیں۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک بھی ہے کہ جب قربانی کرو یا کوئی فرض ادا کرو ، زکوٰۃ و صدقہ ادا کرو تو بخوشی کیا کرو۔ دل میں کوئی بوجھ محسوس نہ کرو۔ بلکہ اللہ کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمہیں خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائی ۔ اگر وہ توفیق ہی سلب کرلے تو تم کیا کرسکتے ہو ، لہٰذا دل کی خوشی سے خرچ کرو۔ اور پھر کسی محتاج کو نہ ایذا پہنچائو اور نہ اس پر احسان جتلائو ، یہ چیزیں اللہ کو سخت ناپسند ہیں۔ اہل ایمان کا کام یہ ہے کہ کہ وہ خوشی خاطر سے صدقہ خیرات کرتے ہیں۔ فرمایا (آیت) ” والذین لا یجدون الا جھدھم “ منافق لوگ ان اہل ایمان پر بھی طعن کرتے ہیں جو نہیں پاتے مگر محنت ومشقت جہد کا معنی محنت ہے۔ یعنی جس شخص نے ساری رات پانی کھینچ کر تھوڑی سی مزدوری حاصل کی اور اس میں سے بھی آدھا حصہ صدقہ کر دیامنافقین کے اعتراض سے وہ بھی نہیں بچ سکا۔ فرمایا جو سخت محنت کر کے کماتے ہیں ، منافق ان پر بھی طعن کرتے ہیں (آیت) ” فیسخرون منھم “ ان کے ساتھ ٹھٹا کرتے ہیں کہ دیکھو ! نصف صاع کھجوریں دے کر بڑا تیر مار رہے ہیں فرمایا (آیت) ” سخر اللہ منھم “ اللہ بھی ان کے ٹھٹھے کا بدلہ دے گا ، اللہ کے ٹھٹھا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ٹھٹھا کا جواب دے گا۔ سورة بقرہ میں بھی گزر چکا ہے کہ منافق جب مومنوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے ہیں مگر جب اپنے ساتھی منافقوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو مسلمانوں سے ٹھٹھا مذاق کرتے ہیں ، ہم دل سے تو ایمان نہیں لائے۔ اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا (آیت) ” اللہ یستھزی بھم “ اللہ بھی ان کے ساتھ مذاق کرتا ہے یعنی ان کے مذاق کا بدلہ دیتا ہے۔ تو فرمایا اللہ تعالیٰ ان بدطینت ، بدخصلت ، بداخلاق اور بدنیت منافقوں کو ضرور ان کے مذاق کا بدلہ دیگا جو خوشی خاطر سے صدقہ کرنے والوں کو طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے ہیں (آیت) ” ولھم عذاب الیم “ اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ اس سے یہ عام قانون معلوم ہوا کہ نیکی کرنے والے آدمی کے ساتھ مذاق نہیں کرنا چاہیے کوئی شخص نماز پڑھتا ہے تو اس پر تمسخر نہیں کرنا چاہیے کہ یہ برا نمازی اور پرہیزگار بنا پھرتا ہے۔ یہ تو منافقوں کا کام ہے۔ اس کے بجائے نیکی کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے اور جو کوئی کسی نیکو کار کی دل شکنی کریگا وہ اللہ تعالیٰ کی وعید کی زد میں آئیگا۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کی یہ بری عادت بھی بیان فرما دی۔ منافقین کے لیے دعائے مغفرت : آگے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” استغفرلھم اولاتستغفرلھم “ آپ منافقین کے لیے بخشش طلب کریں یا نہ کریں برابر ہے۔ (آیت) ” ان تستغفرلھم سبعین مرۃ فلن یغفر اللہ لھم “ اگر آپ ستر مرتبہ بھی ان کے لیے استغفار کریں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا۔ عربی اصطلاح میں ساٹھ ستر یا سات سو تکثیر کے لیے آتا ہے یعنی جب کسی چیز کا کثیر تعداد میں ذکر مطلوب ہو تو اس قسم کے عدد استعمال کیے جاتے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ آپ کتنی زیادہ دفعہ بھی ان منافقوں کے لیے بخشش کی دعا کریں ، اللہ قبول نہیں کریگا۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ رئیس المنافقین عبداللہ ابن ابی جب مر گیا تو اس کے مسلمان بیٹے نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ میرا باپ فوت ہوگیا ہے۔ اس نے ظاہری طور پر کلمہ بھی پڑھا تھا اور بعض اوقات جہاد میں بھی شامل ہوجاتا تھا۔ آپ مہربانی فرما کی اس کا جنازہ پڑھیں اس کی مکمل تفصیل تو اگلے رکوع میں آرہی ہے۔ تا ہم اس کے بیٹے کی سفارش پر حضور ﷺ نے اپنی قمیص عبداللہ ابن ابی کے کفن کے لیے دیدی ، اس کے منہ میں لعاب دہن بھی ڈالا ، اس کا جنازہ بھی پڑھایا اور اسکی بخشش کے لیے دعا کی۔ حضرت عمر ؓ نے اس موقع پر حضور ﷺ کو روکنے کی کوشش کی اور عرض کیا کہ آپ ایسے شخص کی لیے دعائے مغفرت فرما رہے ہیں جس نے فلاں فلاں موقع پر فلاں شرارت کی تھی۔ آپ نے فرمایا ، عمررض ! ہٹ جائو ، مجھے دعا کرنے دو کیونکہ اللہ نے مجھے دعا کرنے سے منع نہیں فرمایا بلکہ اختیار دیا ہے کہ آپ بخشش مانگیں یا نہ مانگیں۔ امام ابوبکر ابن عربی (رح) نے اپنی تفسیر احکام القرآن میں لکھا ہے۔ کہ چونکہ اللہ نے حضور کو دعا کرنے سے منع نہیں فرمایا تھا اس لی مصلحت اسی میں تھی کہ آپ اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے۔ منافقوں کے حق میں دعا کی قطعی ممانعت بعد میں آئی تھی جس کا ذکر اگلے رکوع میں آرہا ہے ، لہٰذا اس موقع پر حضور ﷺ کے جنازہ پڑھنے اور دعا کرنے کا یہ اثر ہوا کہ عبداللہ بن ابی کے قبیلہ کے ایک ہزار افراد مسلمان ہوگئے۔ انہوں نے جان لیا کہ اتنے کریمانہ اخلاق کا مالک ایک نبی ہی ہو سکتا ہے جس نے اپنے ایسے دشمن پر مہربانی فرمائی جو ہمیشہ آپ کی عیب جوئی کرتا تھا اور دین کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا تھا۔ عبد اللہ بن ابی کے بیٹے کا اصل نام حباب تھا۔ حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے نام دریافت کیا ، عرض کیا میرا نام حباب ہے حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو شیطان کا نام ہے ، لہٰذا آج سے تمہارا نام عبداللہ بن عبداللہ ہے۔ معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کی سنت کے اتباع میں کسی غلط نام کو بدل دینا چاہیے ۔ کوئی ایسا نام جس سے شرک کی بو آتی ہو یا جس سے ظلم و زیادتی اور گناہ کا اظہار ہوتا ہو ، بدل دینا چاہیے۔ اسی طرح خانون کا نام ” برۃ “ تھا۔ بڑی نیک اور پارسا خاتون تھیں مگر اس کا معنی اپنے منہ سے اپنی تعریف کرنا ہے ، لہٰذا حضور ﷺ نے فرمایا ، اس نام کو بدل دو ، آج سے تمہارا نام زینب ہے۔ فرمایا ” لا تزکوا انفسکم “ اپنی تعریف خود نہ کیا کرو کہ خود ستائی اچھی نہیں ہوتی۔ عدم معافی کا اعلان : بہرحال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی ع ! اگر آپ منافقین کے لیے ستر مرتبہ بھی بخشش کی دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہرگز قبول نہیں کرے گا۔ کیوں ؟ (آیت) ” ذلک بانھم کفروا باللہ ورسولہ “ یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے۔ انہوں نے خدا کی وحدانیت کو تسلیم نہیں کیا ، اس کے رسول پر ایمان نہیں لائے ، بخشش کا مدار تو ایمان پر ہے اگر ایمان ہی مفقود ہے تو بخشش کی امید کیسے کی جاسکتی ہے ؟ جو شخص اللہ کے فرشتوں ، اس کی نازل کردہ کتابوں ، اچھی اور بری تقدیر پر ایمان نہیں رکھتا ، وہ نجات کا حق دار کیسے ہو سکتا ہے تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہرگز معاف نہیں کریگا کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا۔ فرمایا (آیت) ” واللہ لا یھدی القوم الفسقین “ اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو راہ نہیں دکھاتا۔ جو فسق پر اڑے ہوئے ہیں ، انہیں راہ راست نصیب نہیں ہو سکتا۔ جب یہ دنیا سے جاتے ہیں تو کفر کی حالت میں جاتے ہیں اور بالآخر جہنم کا شکا ر ہوجاتے ہی۔ ان کے حصے میں ابدی ناکامی آتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کرنے والے ہدایت کے مستحق نہیں بنتے۔
Top