Mufradat-ul-Quran - Yunus : 89
قَالَ قَدْ اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِیْمَا وَ لَا تَتَّبِعٰٓنِّ سَبِیْلَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ
قَالَ : اس نے فرمایا قَدْ اُجِيْبَتْ : قبول ہوچکی دَّعْوَتُكُمَا : تمہاری دعا فَاسْتَقِيْمَا : سو تم دونوں ثابت قدم رہو وَلَا تَتَّبِعٰٓنِّ : اور نہ چلنا سَبِيْلَ : راہ الَّذِيْنَ : ان لوگوں کی جو لَايَعْلَمُوْنَ : ناواقف ہیں
(خدا نے) فرمایا کہ تمہاری دعا قبول کرلی گئی تو تم ثابت قدم رہنا اور بےعقلوں کے راستے نہ چلنا۔
قَالَ قَدْ اُجِيْبَتْ دَّعْوَتُكُمَا فَاسْتَــقِيْمَا وَلَا تَتَّبِعٰۗنِّ سَبِيْلَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ۝ 89 جوب الجَوْبُ : قطع الجَوْبَة، وهي کا لغائط من الأرض، ثم يستعمل في قطع کلّ أرض، قال تعالی: وَثَمُودَ الَّذِينَ جابُوا الصَّخْرَ بِالْوادِ [ الفجر/ 9] ، ويقال : هل عندک جَائِبَة خبر ؟ وجوابُ الکلام : هو ما يقطع الجوب فيصل من فم القائل إلى سمع المستمع، لکن خصّ بما يعود من الکلام دون المبتدأ من الخطاب، قال تعالی: فَما کانَ جَوابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قالُوا [ النمل/ 56] والجواب يقال في مقابلة السؤال، والسؤال علی ضربین : طلب مقال، وجوابه المقال . وطلب نوال، وجوابه النّوال . فعلی الأول : أَجِيبُوا داعِيَ اللَّهِ [ الأحقاف/ 31] ، وعلی الثاني قوله : قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما [يونس/ 89] ، أي : أعطیتما ما سألتما . ( ج و ب ) الجوب ( ج و ب ) الجوب رض ) اس کے اصل معنی جو بہ قطع کرنے کے میں اور یہ پست زمین کی طرح مین گڑھاسا ) ہوتا ہے ۔ پھر ہر طرح زمین کے قطع کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَثَمُودَ الَّذِينَ جابُوا الصَّخْرَ بِالْوادِ [ الفجر/ 9] اور غمود کے ساتھ کیا کیا جو وادی ( قریٰ ) میں پتھر تراشتے اور مکانات بناتے تھے ۔ الجائبتہ ۔ پھیلنے والی ) محاورہ ہے ھن عندک من جایبتہ خبر ۔ کیا تمہارے پاس کوئی نشر ہونے والی خبر ہے ۔ جواب الکلام اور کسی کلام کے جواب کو بھی جواب اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ قائل کے منہ سے نکل کر فضا کو قظع کرتا ہوا سامع کے کان تک پہنچتا ہے مگر عرف میں ابتداء کلام کرنے کو جواب نہیں کہتے بلکہ کلام کے لوٹا پر جواب کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَما کانَ جَوابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قالُوا [ النمل/ 56] تو ان کی قوم کے لوگ ( بولے تو ) یہ بولے اور اس کے سوا ان کا جواب نہ تھا ۔ جواب کا لفظ سوال کے مقابلہ میں بھی استعمال ہوتا ہے اور سوال دو قسم پر ہے ( 1) گفتگو کا طلب کرنا اس کا جواب گفتگو ہی ہوتی ہے (2) طلب عطا یعنی خیرات طلب کرنا اس کا جواب یہ ہے کہ اسے خیرات دے دی جائے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : أَجِيبُوا داعِيَ اللَّهِ [ الأحقاف/ 31] خدا کی طرف سے بلانے والے کی باٹ قبول کرو ۔ اور جو شخص خدا کی طرف بلانے والے کی باٹ قبول نہ کرے ۔ اور دوسرے معنی کے اعتبار سے فرمایا : : قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما [يونس/ 89] ، کہ تمہاری دعا قبول کرلی گئی تو ہم ثابت قدم رہنا دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ الاسْتِقَامَةُ يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] الاستقامۃ ( استفعال ) کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] ہم کو سداھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے
Top