Mufradat-ul-Quran - Al-Israa : 70
فَلَا تَكُ فِیْ مِرْیَةٍ مِّمَّا یَعْبُدُ هٰۤؤُلَآءِ١ؕ مَا یَعْبُدُوْنَ اِلَّا كَمَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُهُمْ مِّنْ قَبْلُ١ؕ وَ اِنَّا لَمُوَفُّوْهُمْ نَصِیْبَهُمْ غَیْرَ مَنْقُوْصٍ۠   ۧ
فَلَا تَكُ : پس تو نہ رہ فِيْ مِرْيَةٍ : شک و شبہ میں مِّمَّا : اس سے جو يَعْبُدُ : پوجتے ہیں هٰٓؤُلَآءِ : یہ لوگ مَا يَعْبُدُوْنَ : وہ نہیں پوجتے اِلَّا : مگر كَمَا : جیسے يَعْبُدُ : پوجتے تھے اٰبَآؤُهُمْ : ان کے باپ دادا مِّنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَاِنَّا : اور بیشک ہم لَمُوَفُّوْهُمْ : انہیں پورا پھیر دیں گے نَصِيْبَهُمْ : ان کا حصہ غَيْرَ مَنْقُوْصٍ : گھٹائے بغیر
تو یہ لوگ جو (غیر خدا کی) پرستش کرتے ہیں اس سے تم خلجان میں نہ پڑنا۔ یہ اسی طرح پرستش کرتے ہیں جس طرح پہلے سے ان کے باپ دادا پرستش کرتے ہیں۔ اور ہم ان کا انکا حصہ پورا پورا بلاکم وکاست دینے والے ہیں۔
فَلَا تَكُ فِيْ مِرْيَۃٍ مِّمَّا يَعْبُدُ ہٰٓؤُلَاۗءِ۝ 0 ۭ مَا يَعْبُدُوْنَ اِلَّا كَـمَا يَعْبُدُ اٰبَاۗؤُہُمْ مِّنْ قَبْلُ۝ 0 ۭ وَاِنَّا لَمُوَفُّوْہُمْ نَصِيْبَہُمْ غَيْرَ مَنْقُوْصٍ۝ 109 ۧ مری المِرْيَةُ : التّردّد في الأمر، وهو أخصّ من الشّكّ. قال تعالی: وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج/ 55] ، فَلا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِمَّا يَعْبُدُ هؤُلاءِ [هود/ 109] ، فَلا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقائِهِ [ السجدة/ 23] ، أَلا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقاءِ رَبِّهِمْ [ فصلت/ 54] والامتراء والممَارَاة : المحاجّة فيما فيه مرية . قال تعالی: قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم/ 34] ، بِما کانُوا فِيهِ يَمْتَرُونَ [ الحجر/ 63] ، أَفَتُمارُونَهُ عَلى ما يَرى[ النجم/ 12] ، فَلا تُمارِ فِيهِمْ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف/ 22] وأصله من : مَرَيْتُ النّاقةَ : إذا مسحت ضرعها للحلب . ( م ر ی) المریۃ کے معنی کسی معاملہ میں تردد ہوتا ہے ۔ کے ہیں اور یہ شک سے خاص قرآن میں ہے : وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج/ 55] اور کافر لوگ ہمیشہ اس سے شک میں رہیں گے۔ الامتراء والمماراۃ کے معنی ایسے کام میں جھگڑا کرنا کے ہیں ۔ جس کے تسلیم کرنے میں تردد ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم/ 34] یہ سچی بات ہے جس میں لوگ شک کرتے ہیں بما کانوا فِيهِ يَمْتَرُونَ [ الحجر/ 63] جس میں لوگ شک کرتے تھے ۔ أَفَتُمارُونَهُ عَلى ما يَرى[ النجم/ 12] کیا جو کچھ وہ دیکھتے ہیں تم اس میں ان سے جھگڑتے ہو ۔ فَلا تُمارِ فِيهِمْ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف/ 22] تو تم ان کے معاملے میں گفتگو نہ کرنا ۔ مگر سرسری سی گفتگو ۔ دراصل مریت الناقۃ سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنی ہیں اونٹنی کے تھنوں کو سہلانا تاکہ دودھ دے دے ۔ ( مریم ) علیماالسلام ۔ یہ عجمی لفظ ہے اور حضرت عیسیٰ اعلیہ السلام کی والدہ کا نام ( قرآن نے مریم بتایا ہے عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ وُفِّيَتْ وتَوْفِيَةُ الشیءِ : ذله وَافِياً ، واسْتِيفَاؤُهُ : تناوله وَافِياً. قال تعالی: وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران/ 25] اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور استیفاء کے معنی اپنا حق پورا لے لینے کے ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران/ 25] اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔ نقص النَّقْصُ : الخُسْرَانُ في الحَظِّ ، والنُّقْصَانُ المَصْدَرُ ، ونَقَصْتُهُ فهو مَنْقُوصٌ. قال تعالی: وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَالْأَنْفُسِ [ البقرة/ 155] ، وقال : وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِيبَهُمْ غَيْرَ مَنْقُوصٍ [هود/ 109] ، ( ن ق ص ) النقص ( اسم ) حق تلفی اور یہ نقصتہ ( ن ) فھو منقو ص کا مصدر بھی ہے جس کے معنی گھٹانے اور حق تلفی کر نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَالْأَنْفُسِ [ البقرة/ 155] اور جانوں اور مالوں ۔۔۔۔ کے نقصان سے وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِيبَهُمْ غَيْرَ مَنْقُوصٍ [هود/ 109] اور ہم ان کو ان کا حصہ پورا پوارا کم وکاست دینے والے ہیں ۔
Top