Mufradat-ul-Quran - Hud : 82
فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَهَا سَافِلَهَا وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهَا حِجَارَةً مِّنْ سِجِّیْلٍ١ۙ۬ مَّنْضُوْدٍۙ
فَلَمَّا : پس جب جَآءَ : آیا اَمْرُنَا : ہمارا حکم جَعَلْنَا : ہم نے کردیا عَالِيَهَا : اس کا اوپر (بلند) سَافِلَهَا : اس کا نیچا (پست) وَاَمْطَرْنَا : اور ہم نے برسائے عَلَيْهَا : اس پر حِجَارَةً : پتھر مِّنْ سِجِّيْلٍ : کنکر (سنگریزہ) مَّنْضُوْدٍ : تہہ بہ تہہ
تو جب ہمارا حکم آیا ہم نے اس (بستی) کو (الٹ کر) نیچے اوپر کردیا اور ان پر پتھر کی تہ بہ تہ (یعنی پے در پے) کنکر یاں برسائیں۔
فَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَہَا سَافِلَہَا وَاَمْطَرْنَا عَلَيْہَا حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّيْلٍ۝ 0ۥۙ مَّنْضُوْدٍ۝ 82ۙ لَمَّا يستعمل علی وجهين : أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر . ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ علا العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعُلْوِيُّ والسُّفْليُّ المنسوب إليهما، والعُلُوُّ : الارتفاعُ ، وقد عَلَا يَعْلُو عُلُوّاً وهو عَالٍ وعَلِيَ يَعْلَى عَلَاءً فهو عَلِيٌّ فَعَلَا بالفتح في الأمكنة والأجسام أكثر . قال تعالی: عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان/ 21] وقیل : إنّ ( عَلَا) يقال في المحمود والمذموم، و ( عَلِيَ ) لا يقال إلّا في المحمود، قال : إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص/ 4] ، فقوله : ( علوّا) ليس بمصدر تعالی. كما أنّ قوله ( نباتا) في قوله : أَنْبَتَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ نَباتاً [ نوح/ 17] ، و ( تبتیلا) في قوله : وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا [ المزمل/ 8] ، كذلك ( ع ل و ) العلو کسی چیز کا بلند ترین حصہ یہ سفل کی ضد ہے ان کی طرف نسبت کے وقت علوی اسفلی کہا جاتا ہے اور العوا بلند ہونا عال صفت فاعلی بلند علی علی مگر علا ( فعل ) کا استعمال زیادہ تر کسی جگہ کے یا جسم کے بلند ہونے پر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان/ 21] ان کے بدنوں پر دیبا کے کپڑے ہوں گے ۔ بعض نے علا اور علی میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ علان ( ن ) محمود اور مذموم دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے لیکن علی ( س ) صرف مستحن معنوں میں بولا جاتا ہے : ۔ قرآن میں ہے : ۔إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص/ 4] فرعون نے ملک میں سر اٹھا رکھا تھا ۔ لَعالٍ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الْمُسْرِفِينَ [يونس/ 83] اور فرعون ملک میں متکبر اور متغلب اور ( کبر وکفر میں ) حد سے بڑہا ہوا تھا فَاسْتَكْبَرُوا وَكانُوا قَوْماً عالِينَ [ المؤمنون/ 46] ، تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ سر کش لوگ تھے ۔ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْعالِينَ [ ص/ 75] کیا تو غرور میں آگیا اور نچے درجے والوں میں تھا۔ لا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ [ القصص/ 83] جو ملک میں ظلم اور فساد کا ارداہ نہیں رکھتے ۔ وَلَعَلا بَعْضُهُمْ عَلى بَعْضٍ [ المؤمنون/ 91] اور ایک دوسرے پر غالب آجاتا ۔ اور مجھ سے سر کشی نہ کرو ۔ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيراً [ الإسراء/ 4 اور بڑی سر کشی کرو گے ۔ وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ ظُلْماً وَعُلُوًّا [ النمل/ 14] اور بےانصابی اور غرور سے ( ان کا انکار کیا) کہ ان کے دل ان کو مان چکے تھے سفل السُّفْلُ : ضدّ العلو، وسَفُلَ فهو سَافِلٌ ، قال تعالی: فَجَعَلْنا عالِيَها سافِلَها [ الحجر/ 74] ، وأَسْفَل ضدّ أعلی، ( سل ) السفل یہ علو کی ضد ہے اور سفل ( سفولا ) فھوا سافل کے معنی پست اور حقیر ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے فَجَعَلْنا عالِيَها سافِلَها [ الحجر/ 74] مطر المَطَر : الماء المنسکب، ويومٌ مَطِيرٌ وماطرٌ ، ومُمْطِرٌ ، ووادٍ مَطِيرٌ. أي : مَمْطُورٌ ، يقال : مَطَرَتْنَا السماءُ وأَمْطَرَتْنَا، وما مطرت منه بخیر، وقیل : إنّ «مطر» يقال في الخیر، و «أمطر» في العذاب، قال تعالی: وَأَمْطَرْنا عَلَيْهِمْ مَطَراً فَساءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ [ الشعراء/ 173] ( م ط ر ) المطر کے معنی بارش کے ہیں اور جس دن بارش بر سی ہوا سے ويومٌ مَطِيرٌ وماطرٌ ، ومُمْطِرٌ ، ووادٍ مَطِيرٌ. کہتے ہیں واد مطیر باراں رسیدہ وادی کے معنی بارش بر سنا کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ مطر اچھی اور خوشگوار بارش کے لئے بولتے ہیں اور امطر عذاب کی بارش کیلئے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَأَمْطَرْنا عَلَيْهِمْ مَطَراً فَساءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ [ الشعراء/ 173] اور ان پر ایک بارش بر سائی سو جو بارش ان ( لوگوں ) پر برسی جو ڈرائے گئے تھے بری تھی ۔ حجر الحَجَر : الجوهر الصلب المعروف، وجمعه : أحجار وحِجَارَة، وقوله تعالی: وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة/ 24] ( ح ج ر ) الحجر سخت پتھر کو کہتے ہیں اس کی جمع احجار وحجارۃ آتی ہے اور آیت کریمہ : وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة/ 24] جس کا اندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ حجر الحَجَر : الجوهر الصلب المعروف، وجمعه : أحجار وحِجَارَة، وقوله تعالی: وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة/ 24] ( ح ج ر ) الحجر سخت پتھر کو کہتے ہیں اس کی جمع احجار وحجارۃ آتی ہے اور آیت کریمہ : وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة/ 24] جس کا اندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ نضد يقال : نَضَدْتُ المتاعَ بعضه علی بعض : أَلْقَيْتُهُ ، فهو مَنْضُودٌ ونَضِيدٌ ، والنَّضَدُ : السَّريرُ الذي يُنَضِّدُ عليه المتاعُ ، ومنه اسْتُعِيرَ : طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق/ 10] ، وقال تعالی: وَطَلْحٍ مَنْضُودٍ [ الواقعة/ 29] ، وبه شُبِّهَ السَّحابُ المتراکم فقیل له : النَّضَدُ ، وأَنْضَادُ القومِ : جماعاتُهْم، ونَضَدُ الرَّجُلِ : مَنْ يَتَقَوَّى به من أَعْمامِهِ وأَخْوالِهِ. ( ن ض د ) نضد ت المتاع بعضہ علیٰ بعض کے منعی سامان کو قرضے سے اوپر نیچے رکھنے کے ہیں اور قرینے سے رکھے ہوئے سامان کو منضود یا نضید کہا جاتا ہے اور جس تخت پر سامان جوڑ کر رکھا جائے اسے بھی نضید کہتے ہیں ۔۔۔ ، اسی سے استعارہ فرمایا : ۔ طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق/ 10] اور دوسرے مقام پر فرمایا : وَطَلْحٍ مَنْضُودٍ [ الواقعة/ 29] اور تہ بہ تہ کیلوں ۔ اور مجازا گہرے بادل کو بھی نضد کہا جاتا ہے ۔ اور انضاد القوم کے معنی لوگوں کی مختلف آدمی کے اعمام واخوال کے ہیں جن کی مدد سے وہ مضبوط ہوتا ہے ۔
Top