Tafseer-e-Majidi - Adh-Dhaariyat : 21
وَ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ١ؕ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ
وَفِيْٓ : اور میں اَنْفُسِكُمْ ۭ : تمہاری ذات اَفَلَا : تو کیا نہیں تُبْصِرُوْنَ : تم دیکھتے
اور خود تمہاری ذات میں بھی کیا تمہیں دکھائی نہیں دیتا ؟ ،10۔
10۔ یعنی انسان اگر خود اپنے حالات ظاہری وباطنی کا جائزہ لیتا ہے، اگر آیات آفاقی وانفسی پر غور کرتا رہے تو وقوع حشر کی ضرورت کا وہ ضرور قائل ہوجائے گا۔ (آیت) ” للموقنین “۔ یعنی ان لوگوں کے لیے جن کے دلوں میں یقین کی طلب اور حق کی جستجو ہے۔ (آیت) ” وفی الارض ایت “۔ یعنی وقوع قیامت وجزاء کے آفاقی دلائل و شواہد۔ دنیا میں جتنے بھی علوم وفنون نظر آتے ہیں۔ یہ سب کیا ہیں ؟ موجودات عالم اور ان کے مختلف اصناف کے متعلق قاعدے اور کلیے ہی تو ہیں۔ آفتاب وماہتاب سے لے کر ریگستان کے ذروں اور دریا کے قطروں اور گھاس کی پتیوں اور ننھے سے ننھے کیڑوں تک بڑی چھوٹی چیزیں جو کچھ بھی کائنات میں ہیں۔ سب کیسی قاعدوں میں بندھی ہوئی اور ضابطہ کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہیں۔ تو یہ سارا عقلوں کو حیران کرنے والا، عظیم الشان نظام اور دماغوں کو حیرت میں ڈال دینے والا بےانتہاء وسیع انتظام جس کے اندر بخت واستفاق کی کوئی ہلکی سی بھی گنجائش نہیں، یہ سب ایک کردگار حکیم ومختار کے وجود کے دلائل و شواہد نہیں تو اور کیا ہیں ؟ (آیت) ” وفی انفسکم “۔ یعنی وقوع قیامت وجزاء کے نفسی دلائل و شواہد۔ انسان اگر خود اپنے ہی جسم اور اعضاء جسم کی حکیمانہ ترکیب وتناسب پر اور اپنے ہی ذہن وعقل کی انتہائی حکیمانہ ترتیب وساخت پر غور کرنا شروع کرے تو اس کا دل اور دماغ دونوں گواہی دے اٹھیں گے کہ یہ ساری صنعت گری بجز ایک حکیم مطلق کے اور کسی کی نہیں ہوسکتی۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ (آیت) ” فی انفسکم “۔ کا جو عطف (آیت) ” فی الارض “۔ پر ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ جاہل صوفیہ کا (آیت) ” فی انفسکم “۔ سے تجلی حق پر استدلال کرنا باطل محض ہے۔
Top