Mufradat-ul-Quran - Ar-Ra'd : 27
وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ١ؕ قُلْ اِنَّ اللّٰهَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْۤ اِلَیْهِ مَنْ اَنَابَۖۚ
وَيَقُوْلُ : اور کہتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) لَوْ : کیوں لَآ اُنْزِلَ : نہ اتاری گئی عَلَيْهِ : اس پر اٰيَةٌ : کوئی نشانی مِّنْ : سے رَّبِّهٖ : اس کا رب قُلْ : آپ کہ دیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُضِلُّ : گمراہ کرتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جس کو چاہتا ہے وَيَهْدِيْٓ : اور راہ دکھاتا ہے اِلَيْهِ : اپنی طرف مَنْ : جو اَنَابَ : رجوع کرے
اور کافر کہتے ہیں کہ اس (پیغمبر) پر اس کے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نازل نہیں ہوئی کہہ دو کہ خدا جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے۔ اور جو (اسکی طرف) رجوع ہوتا ہے اسکو اپنی طرف کا راستہ دکھاتا ہے۔
وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ۭ قُلْ اِنَّ اللّٰهَ يُضِلُّ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ اَنَابَ 27؀ ڻ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( کر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] ، وقوله : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُمْ بِإِيمانِهِمْ [يونس/ 9] ، وقوله : وَالَّذِينَ جاهَدُوا فِينا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا [ العنکبوت/ 69] ، وَيَزِيدُ اللَّهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدىً [ مریم/ 76] ، فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 213] ، وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشاءُ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ البقرة/ 213] . الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] إلى قوله : الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدانا لِهذا «1» . وهذه الهدایات الأربع مترتّبة، فإنّ من لم تحصل له الأولی لا تحصل له الثّانية بل لا يصحّ تكليفه، ومن لم تحصل له الثّانية لا تحصل له الثّالثة والرّابعة، ومن حصل له الرّابع فقد حصل له الثلاث التي قبلها، ومن حصل له الثالث فقد حصل له اللّذان قبله «2» . ثمّ ينعكس، فقد تحصل الأولی ولا يحصل له الثاني ولا يحصل الثالث، والإنسان لا يقدر أن يهدي أحدا إلّا بالدّعاء وتعریف الطّرق دون سائر أنواع الهدایات، وإلى الأوّل أشار بقوله : وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الشوری/ 52] ، يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ السجدة/ 24] ، وَلِكُلِّ قَوْمٍ هادٍ [ الرعد/ 7] أي : داع، وإلى سائر الهدایات أشار بقوله تعالی: إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ [ القصص/ 56] وكلّ هداية ذکر اللہ عزّ وجلّ أنه منع الظالمین والکافرین فهي الهداية الثالثة، وهي التّوفیق الذي يختصّ به المهتدون، والرّابعة التي هي الثّواب في الآخرة، وإدخال الجنّة . نحو قوله عزّ وجلّ : كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْماً إلى قوله : وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ «3» [ آل عمران/ 86] وکقوله : ذلِكَ بِأَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَياةَ الدُّنْيا عَلَى الْآخِرَةِ وَأَنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكافِرِينَ [ النحل/ 107] ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں اور اسی سے ھدیتہ ( فعلیتہ ) ہے جس کے معنی اس تحفہ کے ہیں جو بغیر معاوضہ دیا جائے ۔ اور ھوادی الوحش جنگلی جانوروں کے پیش رو دستے کو کہتے ہیں جو گلے کا رہنما ہوتا ہے ،۔ عرف میں دلالت اور رہنمائی کے لئے ھدیت ( افعال ) استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے اھدیت الھدیتہ میں نے ہدیہ بھیجا اور اھدیت الی البیت میں بیت اللہ کی طرف ہدیہ بھیجی ۔ یہاں پر شبہ ہوسکتا ہے ۔ کہ اگر ھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ رہنمائی کرنے کے ہیں تو پھر کفار کو دوزخ کی طرف دھکیلنے کے لئے یہ لفظ کیوں استعمال ہوا ہے جیسا کہ ارشاد ہے : ۔ فَاهْدُوهُمْ إِلى صِراطِ الْجَحِيمِ [ الصافات/ 23] پھر ان کو جہنم کے راستے پر چلا دو ۔ وَيَهْدِيهِ إِلى عَذابِ السَّعِيرِ [ الحج/ 4] اور دوزخ کے عذاب کا رستہ دکھائے گا ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک ہدایت کے اصل بمعنی تو لطف وکرم کے ساتھ رہنمائی کے ہی ہیں لیکن یہاں کفار کے متعلق مبالغہ کے لئے بطور تیکم یہ لفظ استعمال ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذابٍ أَلِيمٍ [ آل عمران/ 21] تو ( اے پیغمبر ) انہیں عذاب الیم کی خوشخبری سنادو ۔ میں عذاب کے متعلق لفظ بشارت استعمال کیا ہے اور شاعر نے اپنے کلام ( 452 ) تحیتہ بینھم ضرب وجیع ان کا باہمی تحیہ تلوار کی دردناک ضرب ہے ) میں ضرب وجیع کے متعلق کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] اور جو شخص خدا پر ایمان لاتا ہے وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُمْ بِإِيمانِهِمْ [يونس/ 9] جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل ( بھی ) کئے ان کے ) ایمان کی برکت سے ان کو ان کا پروردگار ( نجات ) کا رستہ دکائیگا ۔ وَالَّذِينَ جاهَدُوا فِينا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا [ العنکبوت/ 69] اور جن لوگوں نے ہمارے دین ( کے کام ) میں کوشش کی ۔ ہم ( بھی ) ان کو ضرور اپنے رستے دکھائیں گے ۔ وَيَزِيدُ اللَّهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدىً [ مریم/ 76] اور جو لوگ راہ راست پر ہیں اللہ ان کو روز بروز زیادہ ہدایت دیتا چلا جاتا ہے ۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 213] تو خدا نے ( اپنی عنایت سے ) مسلمانوں کو راہ دکھا دی ۔ وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشاءُ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ البقرة/ 213] جس کو چاہتا ہے ۔ ( دین کا ) سیدھا راستہ دکھا تا ہے ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا : ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدانا لِهذاخدا کا شکر ہے جس نے ہم کو یہاں کا رستہ دکھایا اور اگر خدا ہم کو رستہ نہ دکھاتا تو ہم رستہ نہ پاسکتے ۔ ہدایت کے یہ چاروں اقسام تر تیبتی درجات کی حیثیت رکھتے ہیں یعنی جسے پہلے درجہ کی ہدایت حاصل نہ وہ ۔ وہ دوسرے درجہ ہدایت پر فائز نہیں ہوسکتا ، بلکہ وہ تو شرعا مکلف ہی نہیں رہتا ۔ علٰی اہزا لقیاس جسے دوسرے درجہ کی ہدایت حاصل نہ ہو وہ تیسرے اور چوتھے درجہ کی ہدایت سے بہرہ یاب نہیں ہوسکتا اور جسے چوتھے درجہ کی ہدایت حاصل ہو تو اسے پہلے تینوں درجات لازم حاصل ہوں گے ۔ اسی طرح تیسرے درجہ کی ہدایت کا حصول پہلے دو درجوں کی ہدایت کو مستلزم ہے اور اس کے بر عکس درجہ اولٰی کا حصول درجہ ثانیہ کو اور ثانیہ کا حصول ثالثہ کو مستلزم نہیں ہے ۔ ایہک انسان کسی دوسرے کو صرف دعوت الی الخیر اور رہنمائی کے ذریعہ ہی ہدایت کرسکتا ہے باقی اقسام ہدایت اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں لہذا جن آیات میں ہدائیت کی نسبت پیغمبر یا کتاب یا دوسرے انسانوں کی طرف کی گئی ہے وہاں صرف راہ حق کی طرف رہنمائی کرنا مراد ہے ، چناچہ فرمایا : ۔ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الشوری/ 52] اور بیشک ( محمد ﷺ ) سیدھا رستہ دکھاتے ہیں ۔ يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ السجدة/ 24] جو ہمارے حکم سے ہدایت کیا کرتے تھے ۔ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هادٍ [ الرعد/ 7] اور ہر ایک قوم کے لئے رہنما ہوا کرتے ہیں ۔ اور جن آیات میں پیغمبروں یا دوسرے لوگوں سے ہدایت کی نفی کی گئی ہے وہاں باقی اقسام ہدایت مراد میں چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ [ القصص/ 56] ( اے محمد ﷺ ) تم جس کو دوست رکھتے ہو اسے ہدایت نہیں کرسکتے ۔ اور قرآن میں جہاں کہیں ظالموں اور کافروں کو ہدایت سے روک دینے کا ذکر آیا ہے ۔ وہاں یا تو ہدایت بمعنی ثالث ہے یعنی وہ توفیق خاص جو ہدایت یافتہ کو عطا ہوتی ہے ان سے سلب کرلی جاتی ہے اور یاہدایت معنی رابع ہے کہ اللہ انہیں آخرت میں ثواب کی طرف ہدایت نہیں دیگا اور نہ ہی انہیں جنت میں داخل کرے گا ۔ چناچہ آیت کے آخر میں دفرمایا ۔ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ «3» [ آل عمران/ 86] اور خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا ۔ ذلِكَ بِأَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَياةَ الدُّنْيا عَلَى الْآخِرَةِ وَأَنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكافِرِينَ [ النحل/ 107] یہ اس لئے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت کے مقابلہ میں عزیز رکھا اور اس لئے کہ خدا کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ نوب النَّوْب : رجوع الشیء مرّة بعد أخری. وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر/ 54] ، مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم/ 31] ( ن و ب ) النوب ۔ کسی چیز کا بار بارلوٹ کر آنا ۔ یہ ناب ( ن ) نوبۃ ونوبا کا مصدر ہے، وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر/ 54] اپنے پروردگار کی طررجوع کرو ۔ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم/ 31] ( مومنو) اس خدا کی طرف رجوع کئے رہو ۔ فلان ینتاب فلانا وہ اس کے پاس آتا جاتا ہے ۔
Top