Mufradat-ul-Quran - Ibrahim : 17
یَّتَجَرَّعُهٗ وَ لَا یَكَادُ یُسِیْغُهٗ وَ یَاْتِیْهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّ مَا هُوَ بِمَیِّتٍ١ؕ وَ مِنْ وَّرَآئِهٖ عَذَابٌ غَلِیْظٌ
يَّتَجَرَّعُهٗ : اسے گھونٹ گھونٹ پیے گا وَلَا : اور نہ يَكَادُ يُسِيْغُهٗ : گلے سے اتار سکے گا اسے وَيَاْتِيْهِ : اور آئے گی اسے الْمَوْتُ : موت مِنْ : سے كُلِّ مَكَانٍ : ہر طرف وَّمَا هُوَ : اور نہ وہ بِمَيِّتٍ : مرنے والا وَ : اور مِنْ وَّرَآئِهٖ : اس کے پیچھے عَذَابٌ : عذاب غَلِيْظٌ : سخت
وہ اس کو گھونٹ گھونٹ پئے گا اور گلے سے نہیں اتار سکے گا اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا۔ اور اس کے پیچھے سخت عذاب ہوگا۔
يَّتَجَرَّعُهٗ وَلَا يَكَادُ يُسِيْغُهٗ وَيَاْتِيْهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّمَا هُوَ بِمَيِّتٍ ۭ وَمِنْ وَّرَاۗىِٕهٖ عَذَابٌ غَلِيْظٌ 17؀ جرع جَرِعَ الماء يَجْرَعُ ، وقیل : جَرَعَ «7» ، وتَجَرَّعَهُ : إذا تكلّف جرعه . قال عزّ وجلّ : يَتَجَرَّعُهُ وَلا يَكادُ يُسِيغُهُ [إبراهيم/ 17] ، والجُرْعَة : قدر ما يتجرّع، وأفلت بجُرَيْعَة الذّقن «1» ، بقدر جرعة من النفس . ونوق مَجَارِيع : لم يبق في ضروعها من اللبن إلا جرع، والجَرَعُ والجَرْعَاء : رمل لا ينبت شيئا كأنّه يتجرع البذر . ( ج ر ع) جرع ( ف) جرعا الماء گھونٹ گھونٹ کرکے پانی پینا اور بقول بعض جرع ( س) آتا ہے ۔ تجرعہ ( تفعل ) تکلف سے گھونٹ گھونٹ کرکے پی گیا ۔ گویا اس کا پینا طبعیت پر ناگوار گزررہا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ يَتَجَرَّعُهُ وَلا يَكادُ يُسِيغُهُ [إبراهيم/ 17] وہ اس کو گھونٹ گھونٹ پئے گا اور گلے سے نہیں اتار سکیگا ۔ جرعۃ ایک مرتبہ گھونٹ سے نگلنا مثل مشہور ہے افلت بجریعۃ الذقن وہ ہلاکت کے قریب پہنچ کر بچ نکلا ۔ نوق مجاریع وہ اونٹنیاں جن کا دودھ تقریبا خشک ہوگیا ہو ۔ الجرع والجرعاء ریگستان جس میں کچھ نہ اگے گویا وہ بیج کو نگل لیتا ہے ۔ ساغ سَاغَ الشّراب في الحلق : سهل انحداره، وأَسَاغَهُ كذا . قال : سائِغاً لِلشَّارِبِينَ [ النحل/ 66] ، وَلا يَكادُ يُسِيغُهُ [إبراهيم/ 17] ، وسَوَّغْتُهُ مالا مستعار منه، وفلان سوغ أخيه : إذا ولد إثره عاجلا تشبيها بذلک . ( س و غ ) ساغ الشراب فی لخلق کے معنی شراب کے آسانی کے ساتھ حلق سے نیچے اتر جانا کے ہیں واساغہ کزا ( افعال ) کے معنی حلق سے نیچے اتار نے کے چناچہ قرآن میں ہے ۔ سائِغاً لِلشَّارِبِينَ [ النحل/ 66] پینے والوں کے لئے خوش گوار ہے ۔ وَلا يَكادُ يُسِيغُهُ [إبراهيم/ 17] اور گلے سے نہیں اتار سکے گا ۔ اور اسی سے استعارہ کے طور پر کہا جاتا ہے سو غتہ مال میں نے اس کے لئے مال خوشگوار بنادیا یعنی مباح کردیا اور پھر اس کے کے ساتھ تشبیہ دے کر فلان سوغ اخیہ کا محاورہ اس بچے کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو اپنے بھائی کے بعد جلدی دی پیدا ہو یہ مذکر ومونث دونوں کے حق مٰن بولا جاتا ہے موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مینو مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے غلظ الغِلْظَةُ ضدّ الرّقّة، ويقال : غِلْظَةٌ وغُلْظَةٌ ، وأصله أن يستعمل في الأجسام لکن قد يستعار للمعاني كالكبير والکثير «1» . قال تعالی: وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً [ التوبة/ 123] ، أي : خشونة . وقال : ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلى عَذابٍ غَلِيظٍ [ لقمان/ 24] ، مِنْ عَذابٍ غَلِيظٍ [هود/ 58] ( ع ل ظ ) الغلظۃ ( غین کے کسرہ اور ضمہ کے ساتھ ) کے معنی موٹاپا یا گاڑھازپن کے ہیں یہ رقتہ کی ضد ہے اصل میں یہ اجسام کی صفت ہے ۔ لیکن کبیر کثیر کی طرح بطور استعارہ معانی کے لئے بھی استعمال ہوتاز ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً [ التوبة/ 123] چاہئے کہ وہ تم میں سختی محسوس کریں میں غلظتہ کے معنی سخت مزاجی کے ہیں ۔ نیز فرمایا۔ ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلى عَذابٍ غَلِيظٍ [ لقمان/ 24] پھر عذاب شدید کی طرف مجبور کر کے لیجائیں گے ۔ مِنْ عَذابٍ غَلِيظٍ [هود/ 58] عذاب شدید سے ۔
Top