Mufradat-ul-Quran - Al-Hijr : 94
فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِیْنَ
فَاصْدَعْ : پس صاف صاف کہہ دیں آپ بِمَا : جس کا تُؤْمَرُ : تمہیں حکم دیا گیا وَاَعْرِضْ : اور اعراض کریں عَنِ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع)
پس جو حکم تم کو (خدا کی طرف سے) ملا ہے وہ (لوگوں کو) سنا دو اور مشرکوں کا (ذرا) خیال نہ کرو۔
فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ 94؀ صدع الصَّدْعُ : الشّقّ في الأجسام الصّلبة کالزّجاج والحدید ونحوهما . يقال : صَدَعْتُهُ فَانْصَدَعَ ، وصَدَّعْتُهُ فَتَصَدَّعَ ، قال تعالی: يَوْمَئِذٍ يَصَّدَّعُونَ [ الروم/ 43] ، وعنه استعیر : صَدَعَ الأمرَ ، أي : فَصَلَهُ ، قال : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] ، وکذا استعیر منه الصُّدَاعُ ، وهو شبه الاشتقاق في الرّأس من الوجع . قال : لا يُصَدَّعُونَ عَنْها وَلا يُنْزِفُونَ [ الواقعة/ 19] ، ومنه الصَّدِيعُ للفجر «1» ، وصَدَعْتُ الفلاة : قطعتها «2» ، وتَصَدَّعَ القومُ أي : تفرّقوا . ( ص د ع ) الصدع کے معنی ٹھوس اجسام جیسے شیشہ لوہا وغیرہ میں شگاف ڈالنا کے ہیں ۔ صدع ( ف) وصدع متعدی ہے اور انصدع وتصدع لازم اسی سے استعارہ کے طور پر صدع الامر کا محاورہ ہے جس کے معنی کسی امر کے ظاہر اور واضح کردینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ) ملا ہے اسے کھول کر بیان کرو۔ اور اسی سے صداع کا لفظ مستعار ہے جس کے معنی دوسرے کے ہیں جس سے گویا سر پھٹا جارہا ہو۔ قرآن میں ہے ؛لا يُصَدَّعُونَ عَنْها وَلا يُنْزِفُونَ [ الواقعة/ 19] اس سے نہ تو دروسر ہوگا اور نہ ان کی عقلیں زائل ہوں گی ۔ اور اسی سے صدیع بمعنی فجر ہے ۔ اور صدعت الفلاۃ کے معنی بیاباں طے کرنے کے ہیں ۔ تصدع القوم لوگ منتشر ہوگئے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَوْمَئِذٍ يَصَّدَّعُونَ [ الروم/ 43] اس روز ( سب لوگ ) الگ الگ ہوجائیں گے ۔ شرك الشِّرْكَةُ والْمُشَارَكَةُ : خلط الملکين، وقیل : هو أن يوجد شيء لاثنین فصاعدا، عينا کان ذلک الشیء، أو معنی، كَمُشَارَكَةِ الإنسان والفرس في الحیوانيّة، ومُشَارَكَةِ فرس وفرس في الکمتة، والدّهمة، يقال : شَرَكْتُهُ ، وشَارَكْتُهُ ، وتَشَارَكُوا، واشْتَرَكُوا، وأَشْرَكْتُهُ في كذا . قال تعالی: وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه/ 32] ، وفي الحدیث : «اللهمّ أَشْرِكْنَا في دعاء الصّالحین» «1» . وروي أنّ اللہ تعالیٰ قال لنبيّه عليه السلام : «إنّي شرّفتک وفضّلتک علی جمیع خلقي وأَشْرَكْتُكَ في أمري» «2» أي : جعلتک بحیث تذکر معي، وأمرت بطاعتک مع طاعتي في نحو : أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد/ 33] ، وقال تعالی: أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ [ الزخرف/ 39] . وجمع الشَّرِيكِ شُرَكاءُ. قال تعالی: وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء/ 111] ، وقال : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر/ 29] ، أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری/ 21] ، وَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل/ 27] . وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، وقال : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 116] ، ومَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة/ 72] ، يُبايِعْنَكَ عَلى أَنْ لا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئاً [ الممتحنة/ 12] ، وقال : سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شاءَ اللَّهُ ما أَشْرَكْنا[ الأنعام/ 148] . والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] ، وقال بعضهم : معنی قوله إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ أي : واقعون في شرک الدّنيا، أي : حبالتها، قال : ومن هذا ما قال عليه السلام :«الشّرک في هذه الأمة أخفی من دبیب النّمل علی الصّفا» «3» قال : ولفظ الشِّرْكِ من الألفاظ المشترکة، وقوله تعالی: فَمَنْ كانَ يَرْجُوا لِقاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صالِحاً وَلا يُشْرِكْ بِعِبادَةِ رَبِّهِ أَحَداً [ الكهف/ 110] ، محمول علی الشّركين، وقوله : فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ [ التوبة/ 5] ، فأكثر الفقهاء يحملونه علی الكفّار جمیعا کقوله : وَقالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ... الآية [ التوبة/ 30] ، وقیل : هم من عدا أهل الکتاب، لقوله : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصاری وَالْمَجُوسَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا [ الحج/ 17] ، أفرد الْمُشْرِكِينَ عن اليهود والنّصاری. ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ کے معنی دو ملکیتوں کو باہم ملادینے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ ایک چیز میں دویادو سے زیادہ آدمیوں کے شریک ہونے کے ہیں ۔ خواہ وہ چیز یادی ہو یا معنوی مثلا انسان اور فرس کا حیوانیت میں شریک ہونا ۔ یا دوگھوڑوں کا سرخ یاسیاہ رنگ کا ہونا اور شرکتہ وشارکتہ وتشارکوا اور اشترکو ا کے معنی باہم شریک ہونے کے ہیں اور اشرکۃ فی کذا کے معنی شریک بنالینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه/ 32] اور اسے میرے کام میں شریک کر ۔ اور حدیث میں ہے (191) اللھم اشرکنا فی دعاء الصلحین اے اللہ ہمیں نیک لوگوں کی دعا میں شریک کر ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر (علیہ السلام) کو فرمایا ۔ (192) انی شرفتک وفضلتک علی جمیع خلقی واشرکتک فی امری ۔ کہ میں نے تمہیں تمام مخلوق پر شرف بخشتا اور مجھے اپنے کام میں شریک کرلیا ۔ یعنی میرے ذکر کے ساتھ تمہارا ذکر ہوتا رہے گا اور میں نے اپنی طاعت کے ساتھ تمہاری طاعت کا بھی حکم دیا ہے جیسے فرمایا ۔ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد/ 33] اور خدا کی فر مانبرداری اور رسول خدا کی اطاعت کرتے رہو ۔ قران میں ہے : ۔ أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ [ الزخرف/ 39]( اس دن ) عذاب میں شریک ہوں گے ۔ شریک ۔ ساجھی ۔ قرآن میں ہے : ۔ [ الزخرف/ 39] . وجمع الشَّرِيكِ شُرَكاءُ. قال تعالی: وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء/ 111] اور نہ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے ۔ اس کی جمع شرگاء ہے جیسے فرمایا : ۔ : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر/ 29] جس میں کئی آدمی شریک ہیں ( مختلف المزاج اور بد خو ۔ أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری/ 21] کیا ان کے وہ شریک ہیں جہنوں نے ان کے لئے ایسا دین منفرد کیا ہے ۔ میرے شریک کہاں ہیں ۔ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل/ 27] دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرھ عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ اور فرمایا : ۔ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 116] اور جس نے خدا کیساتھ شریک بنایا وہ رستے سے دور جا پڑا ۔ ومَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة/ 72] جو شخص خدا کے ساتھ شریک کریگا خدا اس پر بہشت کو حرام کر دیگا ۔ يُبايِعْنَكَ عَلى أَنْ لا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئاً [ الممتحنة/ 12] اس بات پر بیعت کر نیکو آئیں کہ خدا کیساتھ نہ شرک کریں گی ۔ سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شاءَ اللَّهُ ما أَشْرَكْنا[ الأنعام/ 148] جو لوگ شرک کرتے ہیں وہ کہیں گے کہ اگر خدا چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے دوم شرک صیغہ کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] اور یہ اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں ۔ بعض نے الا وھم مشرکون کے معنی یہ کئے ہیں کہ مگر وہ شرک یعنی دنیا کے پھندے میں پھنسے ہوئے ہیں اور اسی سے (علیہ السلام) نے فرمایا الشرک فی ھذہ الامۃ اخفی من دبیب التمثل یعنی اس امت میں شریک چیوٹی کی چال سے بھی خفی ہوگا پس لفظ شرک الفاظ مشترکہ سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلا يُشْرِكْ بِعِبادَةِ رَبِّهِ أَحَداً [ الكهف/ 110] پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے ۔ مین دونوں قسم کا شرک مراد ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ [ التوبة/ 5] مشرکوں کو ۔۔۔۔۔۔۔ قتل کردو ۔ میں اکثر فقہاء نے تمام کفار مراد لئے ہیں ۔ کیونکہ یہود بھی ( اہل کتاب تھے عزیز (علیہ السلام) کو ابن اللہ کہتے تھے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ وَقالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ... الآية [ التوبة/ 30] یہود کہتے کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اہل کتاب کے علاوہ دوسرے کفار مراد ہیں کیونکہ آیت : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصاری وَالْمَجُوسَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا [ الحج/ 17] جو لوگ مومن ( یعنی مسلمان ) ہیں در جو یہودی ہیں اور ستارہ پرست اور عیسائی اور محبوسی اور مشرک میں مشرکین کو یہود نصارٰی سے الگ عطف کے ساتھ بیان فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب مشرکین سے خارج ہیں ۔ ( ش ر ی ) شراء اور بیع دونوں لازم ملزوم ہیں ۔ کیونکہ مشتری کے معنی قیمت دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لینے والے کے ہیں ۔ اور بائع اسے کہتے ہیں جو چیز دے کہ قیمت لے اور یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب ایک طرف سے نقدی اور دوسری طرف سے سامان ہو لیکن جب خریدو فروخت جنس کے عوض جنس ہو ۔ تو دونوں میں سے ہر ایک کو بائع اور مشتری تصور کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بیع اور شراء کے الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں اور عام طور پر شربت بمعنی بعت اور ابتعت بمعنی اشتریت آتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] اور اس کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ ڈالا ۔ يَشْرُونَ الْحَياةَ الدُّنْيا بِالْآخِرَةِ [ النساء/ 74] جو لوگ آخرت ( کو خرید تے اور اس ) کے بدلے دنیا کی زندگی کو بیچنا چاہتے ہیں ۔ پھر شراء اور اشتراء کا لفظ ہر اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جس کے عوض میں دوسری چیز لی جائے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ [ آل عمران/ 77] جو لوگ خدا کے اقراروں کو بیچ کر اس کے عوض تھوڑی سی قیمت حاصل کرتے ہیں ۔ لا يَشْتَرُونَ بِآياتِ اللَّهِ [ آل عمران/ 199] وہ خدا کی آیتوں کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہیں لیتے اشْتَرَوُا الْحَياةَ الدُّنْيا [ البقرة/ 86] جہنوں نے آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی خریدی اشْتَرَوُا الضَّلالَةَ بِالْهُدى [ البقرة/ 16] جہنوں نے گمراہی خریدی ۔ إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ التوبة/ 111] خدا نے مومنوں سے خرید لئے ہیں ۔ اور جس چیز کے بدلے اللہ تعالیٰ نے ان کی جانیں خرید کی ہیں اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ۔ : يُقاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ [ التوبة/ 111] ( یعنی خدا کی راہ میں لڑتے اور شہدوں ہوتے ہیں ) اور خوارج اپنے آپ کو شراۃ کے نام سے موسوم کرتے تھے اور آیت : وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغاءَ مَرْضاتِ اللَّهِ [ البقرة/ 207] اور کوئی شخص ایسا ہے کہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے اپنی جان بیچ ڈالتا ہو ۔ سے استدلال کرتے تھے کہ یہاں یشری بمنعی یبیع ہے جیسا کہ آیت إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى ... الآية [ التوبة/ 111] سے معلو م ہوتا ہے ۔
Top