Mufradat-ul-Quran - An-Nahl : 2
یُنَزِّلُ الْمَلٰٓئِكَةَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖۤ اَنْ اَنْذِرُوْۤا اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاتَّقُوْنِ
يُنَزِّلُ : وہ نازل کرتا ہے الْمَلٰٓئِكَةَ : فرشتے بِالرُّوْحِ : وحی کے ساتھ مِنْ : سے اَمْرِهٖ : اپنے حکم عَلٰي : پر مَنْ يَّشَآءُ : جسے چاہتا ہے مِنْ : سے عِبَادِهٖٓ : اپنے بندے اَنْ : کہ اَنْذِرُوْٓا : تم ڈراؤ اَنَّهٗ : کہ وہ لَآ : نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّآ : سوائے اَنَا : میرے فَاتَّقُوْنِ : پس مجھ سے ڈرو
وہی فرشتوں کو پیغام دیکر اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس کے پاس چاہتا ہے بھیجتا ہے۔ کہ (لوگوں کو) بتادو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو مجھی سے ڈرو۔
يُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖٓ اَنْ اَنْذِرُوْٓا اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّقُوْنِ ۝ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا ملك ( فرشته) وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] ( م ل ک ) الملک الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔ روح وسمّي أشراف الملائكة أَرْوَاحاً ، نحو : يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفًّا[ النبأ/ 38] ، تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج/ 4] ، نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] ، سمّي به جبریل، وسمّاه بِرُوحِ القدس في قوله : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل/ 102] ، وَأَيَّدْناهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ البقرة/ 253] ، وسمّي عيسى عليه السلام روحاً في قوله : وَرُوحٌ مِنْهُ [ النساء/ 171] ، وذلک لما کان له من إحياء الأموات، وسمّي القرآن روحاً في قوله : وَكَذلِكَ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ رُوحاً مِنْ أَمْرِنا [ الشوری/ 52] ، وذلک لکون القرآن سببا للحیاة الأخرويّة الموصوفة في قوله : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، والرَّوْحُ التّنفّس، وقد أَرَاحَ الإنسان إذا تنفّس . وقوله : فَرَوْحٌ وَرَيْحانٌ [ الواقعة/ 89] روح اور قرآن نے ذو شرف ملائکہ کو بھی ارواح سے موسوم کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفًّا[ النبأ/ 38] جس روز کہ روح فرشتہ اور دیگر ملائکہ صفیں باندھ کھڑے ہوں گے ۔ تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج/ 4] فرشتے اور جبریل اس کی طرف چڑھتے ہیں ۔ اور اٰت کریمہ : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اسے روح امین لے کر اترا ۔ میں روح امین سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں ۔ اور دوسری آیت میں جبریل (علیہ السلام) کو روح القدس بھی کہا ہے ۔ جیسے فرمایا : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل/ 102] اس قرآن کو روح القدس لے کر آتے ہیں ۔ قرآن نے حضرت عیٰسی (علیہ السلام) کو روح کہہ کر پکارا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَرُوحٌ مِنْهُ [ النساء/ 171] اور وہ ایک روح تھی جو خدا کی طرف سے آئی اور عیٰسی کو روح اس لئے کہا ہے کہ وہ دو مردوں کو زندہ کرتے تھے ۔ اور قرآن کو بھی روح کہا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَكَذلِكَ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ رُوحاً مِنْ أَمْرِنا [ الشوری/ 52] اس طرح ہم نے اپنے حکم سے ( دین کی ) جان ( یعنی یہ کتاب) تمہاری طرف وحی کے ذریعہ بھیجی ۔ اس لئے قرآن سے حیات اخردی حاصل ہوتی ہے جس کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] اور دار آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے ۔ اور روح ( بفتح الراء ) کے معنی سانس کے ہیں اور اراح الانسان کے معنی تنفس یعنی سانس لینے کے اور آیت : فَرَوْحٌ وَرَيْحانٌ [ الواقعة/ 89] توراحت اور مذاق ہے ۔ میں ریحان سے خوشبودار چیزیں مراد ہیں اور بعض نے رزق مراد لیا ہے ۔ عبد العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ النذیر والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذیر النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔
Top