Mufradat-ul-Quran - An-Nahl : 80
وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْۢ بُیُوْتِكُمْ سَكَنًا وَّ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ جُلُوْدِ الْاَنْعَامِ بُیُوْتًا تَسْتَخِفُّوْنَهَا یَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَ یَوْمَ اِقَامَتِكُمْ١ۙ وَ مِنْ اَصْوَافِهَا وَ اَوْبَارِهَا وَ اَشْعَارِهَاۤ اَثَاثًا وَّ مَتَاعًا اِلٰى حِیْنٍ
وَاللّٰهُ : اور اللہ جَعَلَ : بنایا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ : سے بُيُوْتِكُمْ : تمہارے گھروں سَكَنًا : سکونت کی (رہنے کی) جگہ) وَّجَعَلَ : اور بنایا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ : سے جُلُوْدِ : کھالیں الْاَنْعَامِ : چوپائے بُيُوْتًا : گھر (ڈیرے) تَسْتَخِفُّوْنَهَا : تم ہلکا پاتے ہو انہیں يَوْمَ ظَعْنِكُمْ : اپنے کوچ کے دن وَيَوْمَ : اور دن اِقَامَتِكُمْ : اپنا قیام وَ : اور مِنْ : سے اَصْوَافِهَا : ان کی اون وَاَوْبَارِهَا : اور ان کی پشم وَاَشْعَارِهَآ : اور ان کے بال اَثَاثًا : سامان وَّمَتَاعًا : اور برتنے کی چیزیں اِلٰىحِيْنٍ : ایک وقت (مدت
اور خدا ہی نے تمہارے لئے گھروں کو رہنے کی جگہ بنایا اور اسی نے چوپایوں کی کھالوں سے تمہارے لئے ڈیرے بنائے جن کو تم سبک دیکھ کر سفر اور حضر میں کام لاتے ہو۔ اور ان کی اون اور ریشم اور بالوں سے تم اسباب اور برتنے کی چیزیں (بناتے ہو جو) مدت تک (کام دیتی ہیں)
وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْۢ بُيُوْتِكُمْ سَكَنًا وَّجَعَلَ لَكُمْ مِّنْ جُلُوْدِ الْاَنْعَامِ بُيُوْتًا تَسْتَخِفُّوْنَهَا يَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَيَوْمَ اِقَامَتِكُمْ ۙ وَمِنْ اَصْوَافِهَا وَاَوْبَارِهَا وَاَشْعَارِهَآ اَثَاثًا وَّمَتَاعًا اِلٰى حِيْنٍ 80؀ بيت أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] ، ( ب ی ت ) البیت اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ سكن السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف/ 25] ، ( س ک ن ) السکون ( ن ) حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف/ 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔ جلد الجِلْد : قشر البدن، وجمعه جُلُود . قال اللہ تعالی: كُلَّما نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْناهُمْ جُلُوداً غَيْرَها [ النساء/ 56] ، وقوله تعالی: اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتاباً مُتَشابِهاً مَثانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر/ 23] . والجُلُود عبارة عن الأبدان، والقلوب عن النفوس . وقوله عزّ وجل : حَتَّى إِذا ما جاؤُها شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِما کانُوا يَعْمَلُونَ [ فصلت/ 20] ، وَقالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا [ فصلت/ 21] ، فقد قيل : الجلود هاهنا کناية عن الفروج «2» ، وجلَدَهُ : ضرب جلده، نحو : بطنه وظهره، أو ضربه بالجلد، نحو : عصاه إذا ضربه بالعصا، وقال تعالی: فَاجْلِدُوهُمْ ثَمانِينَ جَلْدَةً [ النور/ 4] . والجَلَد : الجلد المنزوع عن الحوار، وقد جَلُدَ جَلَداً فهو جَلْدٌ وجَلِيد، أي : قويّ ، وأصله لاکتساب الجلد قوّة، ويقال : ما له معقول ولا مَجْلُود أي : عقل وجَلَد . وأرض جَلْدَة تشبيها بذلک، وکذا ناقة جلدة، وجَلَّدْتُ كذا، أي : جعلت له جلدا . وفرس مُجَلَّد : لا يفزع من الضرب، وإنما هو تشبيه بالمجلّد الذي لا يلحقه من الضرب ألم، والجَلِيد : الصقیع، تشبيها بالجلد في الصلابة . ( ج ل د ) الجلد کے معنی بدن کی کھال کے ہیں اس کی جمع جلود آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْناهُمْ جُلُوداً غَيْرَها [ النساء/ 56] جب ان کی کھالیں گل ( اور جل ) جائیں گی تو ہم اور کھالیں بدل دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتاباً مُتَشابِهاً مَثانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر/ 23] اور خدا نے نہایت اچھی باتیں نازل فرمائی ہیں ( یعنی ) کتاب ) جس کی آیتیں باہم ) ملتی جلتی ( ہیں ) اور دہرائی جاتی رہیں ) جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے بدن کے اس سے رونکتے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ پھر ان کے بدن اور دل نرم ( ہوکر ) کی یاد کی طرف ( متوجہ ) ہوجاتے ہیں ۔ میں جلود سے مراد ابدان اور قلوب سے مراد نفوس ہیں اور آیت کریمہ : ۔ حَتَّى إِذا ما جاؤُها شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِما کانُوا يَعْمَلُونَ [ فصلت/ 20] یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو ان کان اور آنکھیں اور چمڑے ( یعنی دوسرے اعضا ) ان کے خلاف ان کے اعمال کی شہادت دیں گے اور وہ اپنے چمڑوں ( یعنی اعظا ) سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف کیوں کیوں شہادت دی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ جلود سے فروج یعنی شرمگاہ ہیں مراد ہیں ۔ جلدۃ ( ض ) کیس کے چمڑے پر مارنا ۔ جیسے اور اس کے دوسرے معنی درے لگانا بھی آتے ہیں ۔ جیسے عصاہ ( یعنی لاٹھی کے ساتھ مارنا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمانِينَ جَلْدَةً [ النور/ 4] تو ان کے اسی اور سے مارو ۔ الجلد والجلد اونٹنی کے بچہ کی بھس بھری ہوئی کھال ۔ جلد ( ک ) جلدا کے معنی قوی ہونے کے ہیں صیغہ صفت جلدۃ وجلدۃ ہے اور اس کے اصل معنی اکتساب الجلدۃ قوۃ یعنی بدن میں قوت حاصل کرنے گے ہیں ۔ محاورہ ہے ؟ ۔ مالہ معقول ولا مجلود اس میں نہ عقل ہے نہ قوت ۔ اور تشبیہ کے طور پر سخت کو اوض جلدۃ کہا جاتا ہے اس طرح قوی اونٹنی کو ناقۃ جلدۃ کہتے ہیں ۔ جلذت کذا میں نے اس کی جلد باندھی ۔ فرس مجلہ مار سے نہ ڈرونے والا گھوڑا یہ تشبیہ کے طور پر بولا جاتا ہے کیونکہ مجلد اس شخص کو کہتے ہیں جسے مارنے سے دور نہ ہو الجلید پالا یخ گویا صلابت میں چمڑے کے متشابہ ۔ نعم ( جانور) [ والنَّعَمُ مختصٌّ بالإبل ] ، وجمْعُه : أَنْعَامٌ ، [ وتسمیتُهُ بذلک لکون الإبل عندهم أَعْظَمَ نِعْمةٍ ، لكِنِ الأَنْعَامُ تقال للإبل والبقر والغنم، ولا يقال لها أَنْعَامٌ حتی يكون في جملتها الإبل ] «1» . قال : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] ، وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام/ 142] ، وقوله : فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس/ 24] فَالْأَنْعَامُ هاهنا عامٌّ في الإبل وغیرها . ( ن ع م ) نعام النعم کا لفظ خاص کر اونٹوں پر بولا جاتا ہے اور اونٹوں کو نعم اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ عرب کے لئے سب سے بڑی نعمت تھے اس کی جمع انعام آتی ہے لیکن انعام کا لفظ بھیڑ بکری اونٹ اور گائے سب پر بولا جاتا ہے مگر ان جانوروں پر انعام کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے ۔ جب اونٹ بھی ان میں شامل ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے ۔ وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام/ 142] اور چار پایوں میں بوجھ اٹھا نے والے ( یعنی بڑے بڑے بھی ) پیدا کئے اور زمین سے لگے ہوئے ( یعنی چھوٹے چھوٹے بھی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس/ 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ جسے آدمی اور جانور کھاتے ہیں ۔ مل کر نکلا ۔ میں انعام کا لفظ عام ہے جو تمام جانوروں کو شامل ہے ۔ خفیف الخَفِيف : بإزاء الثّقيل، ويقال ذلک تارة باعتبار المضایفة بالوزن، و قیاس شيئين أحدهما بالآخر، نحو : درهم خفیف، ودرهم ثقیل . والثاني : يقال باعتبار مضایفة الزّمان، نحو : فرس خفیف، وفرس ثقیل : إذا عدا أحدهما أكثر من الآخر في زمان واحد . الثالث : يقال خفیف فيما يستحليه الناس، و ثقیل فيما يستوخمه، فيكون الخفیف مدحا، والثقیل ذمّا، ومنه قوله تعالی: الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ [ الأنفال/ 66] ، فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ [ البقرة/ 86] ( خف ) الخفیف ( ہلکا ) یہ ثقیل کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے ۔ اس کا استعمال کئی طرح پر ہوتا ہے ( 1) کبھی وزن میں مقابلہ کے طور یعنی دو چیزوں کے باہم مقابلہ میں ایک کو خفیف اور دوسری کو ثقیل کہہ دیا جاتا ہے جیسے درھم خفیف ودرھم ثقیل یعنی وہ درہم ہم ہلکا ہے ۔ اور یہ بھاری ہے ( 2) اور کبھی ثقابل زمانی کے اعتبار سے بولے جاتے ہیں ۔ مثلا ( ایک گھوڑا جو فی گھنٹہ دس میل کی مسافت طے کرتا ہوں اور دوسرا پانچ میل فی گھنٹہ دوڑتا ہو تو پہلے کو خفیف ( سبک رفتار ) اور دوسرے کو ثقل ( سست رفتار ) کہا جاتا ہے ( 3) جس چیز کو خوش آئندہ پایا جائے اسے خفیف اور جو طبیعت پر گراں ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اس صورت میں خفیف کا لفظ بطور مدح اور ثقیل کا لفظ بطور ندمت استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات کریمہ ؛ الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ [ الأنفال/ 66] اب خدا نے تم پر سے بوجھ ہلکا کردیا ۔ فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ [ البقرة/ 86] سو نہ تو ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا ۔ اسی معنی پر محمول ہیں ظعن يقال : ظَعَنَ يَظْعَنُ ظَعْناً : إذا شخص . قال تعالی: يَوْمَ ظَعْنِكُمْ [ النحل/ 80] ، والظَّعِينَةُ : الهودج إذا کان فيه المرأة، وقد يكنّى به عن المرأة وإن لم تکن في الهودج . ( ظ ع ن ) ظعن یظعن ظعنا کے معنی کوچ کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ ظَعْنِكُمْ [ النحل/ 80] سفر کے دن ۔ اور ظعینۃ اس ہودج کو کہتے ہیں جس میں عورت سوار ہو اور کبھی یہ لفط کنایہ عورت کے لئے بولا جاتا ہے خواہ وہ ہو وج میں نہ ہو ۔ صوف قال تعالی: وَمِنْ أَصْوافِها وَأَوْبارِها وَأَشْعارِها أَثاثاً وَمَتاعاً إِلى حِينٍ [ النحل/ 80] ، وأخذ بِصُوفَةِ قفاه، أي : بشعره النابت، وکبش صَافٍ ، وأَصْوَفُ ، وصَائِفٌ: كثيرُ الصُّوفِ. والصُّوفَةُ «5» : قومٌ کانوا يخدمون الکعبة، فقیل : سمّوا بذلک لأنّهم تشبّكوا بها کتشبّك الصُّوفِ بما نبت عليه، والصُّوفَانُ : نبت أزغب . والصُّوفِيُّ قيل : منسوب إلى لبسه الصُّوفَ ، وقیل : منسوب إلى الصُّوفَةِ الذین کانوا يخدمون الکعبة لاشتغالهم بالعبادة، وقیل : منسوب إلى الصُّوفَانِ الذي هو نبت، لاقتصادهم واقتصارهم في الطّعم علی ما يجري مجری الصُّوفَانِ في قلّة الغناء في الغذاء . ( ص و) الصواف ( اون ) کی جمع اصواف آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ أَصْوافِها وَأَوْبارِها وَأَشْعارِها أَثاثاً وَمَتاعاً إِلى حِينٍ [ النحل/ 80] اور ان کی اون اور یہ پشم اور بالوں سے تم سامان اور دیگر مفید چیزیں ( بناتے ہو جو ) مدت تک کام دیتی ہیں ۔ اخذ بصوفۃ قفاۃ اسے گدی کے بالوں سے پکڑ لیا ۔ کبش صاف واصوف وصائف بہت اون والا مینڈ ھا اور خانہ کعبہ کے خدام کو بھی صوفۃ کہا جاتا تھا کیونکہ وہ کعبہ کے ساتھ اس طرح چمٹے رہتے تھے جیسے بھیڑ پروان جمی رہتی ہے ۔ الصوفان ایک قسم کی گھاس جو چھوٹی سی ہوتی ہے بعض نے کہا ہے کہ لفظ صوفی بھی صوف کی طرف منسوب ہے کیونکہ یہ لوگ اون کا لباس پہنا کرتے تھے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ صوفۃ کیطرف منسوب ہے جس کے معنی خدام کعبہ کے ہیں صوفی لوگ بھی چونکہ ہر وقت عبادت میں مشغول رہتے تھے اس لئے انہیں صوفی کہدیا گیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ کہ صوفی صؤفان کی طرف منسوب ہے جس کے معنے نو زائید ہ گھاس کے ہیں اور صوفی لوگ بھی چونکہ زبد سے کام لیتے ۔ اور معمولی سی غذا کھاتے تھے جو عدم کفایت میں صوفان گھاس کی مثل ہوتی تھی ۔ وبر الوَبَرُ معروف، وجمعه : أَوْبَارٌ. قال تعالی: وَمِنْ أَصْوافِها وَأَوْبارِها [ النحل/ 80] وقیل : سكّان الوبر لمن بيوتهم من الوبر، وبنات أَوْبَرَ للکمء الصّغار التي عليها مثل الوبر، ووَبَّرَتِ الأرنبُ : غطّت بالوبر الذي علی زمعاتها «1» أثرها، ووَبَّرَ الرّجل في منزله : أقام فيه تشبيها بالوبر الملقی، نحو : تلبّد بمکان کذا : ثبت فيه ثبوت اللّبد، ووبارِ قيل : أرض کانت لعاد . ( و ب ر ) الوبر کے معنی اون کے ہیں اس کی جمع اوبار ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَمِنْ أَصْوافِها وَأَوْبارِها[ النحل/ 80] اور ان کے اون اور یشم ہے ۔ اور جو لوگ پشم کے خیموں میں زندگی بسر کرتے ہیں انہیں سکان الوبر ربا د یہ نشین کہا جاتا ہے ۔ بنات اوبر ۔ روی قسم کے لگر متے جن پر بیری کی طرح کا مادہ ہوتا ہے ۔ چھوٹی اور ردی قسم کی سانپ کی چھتری ۔ وبرت الا رنب خرگوش کا اپنے پاء ں کے پچھلے حصہ کے لٹکے ہوئے بالوں سے اپنے قدموں کے نشانات کو مٹانا ۔ وبرجل فی منزلہ اپنے مکان سے باہر نہ نکلنا ۔ یہ دبر یعنی پشم کے ساتھ تشبیہ دے کر کہا جاتا ہے گویا وہ اپنے گھر کے اندر پشم کی طرح پڑا ہوا ہے جیسا کہ تلبید بمکان کذا کا محاورہ ہے یعنی وہ اپنے مکان کا لببدہ بنا ہوا ہے ۔ لابار ۔ بعض نے کہا ہے کہ قوم عاد کے ایک علاقہ کا نام ہے ۔ شعر ( بال) الشَّعْرُ معروف، وجمعه أَشْعَارٌ قال اللہ تعالی: وَمِنْ أَصْوافِها وَأَوْبارِها وَأَشْعارِها [ النحل/ 80] ( ش ع ر ) الشعرا بال اس کی جمع اشعار آتی ہے قرآن میں ہے ۔ وَمِنْ أَصْوافِها وَأَوْبارِها وَأَشْعارِها [ النحل/ 80] اون اور یشم اور بالوں سے شعرت کے معنی بالوں پر مارنے کے ہیں ۔ أث الأثاث : متاع البیت الکثير، وأصله من : أثّ أي : كثر وتکاثف . وقیل للمال کلّه إذا کثر : أثاث، ولا واحد له، کالمتاع، وجمعه أثاث ونساء أثایث : كثيرات للحمل، كأنّ عليهن أثاثاً ، وتأثّث فلان : أصاب أثاثاً. ( ا ث ث ) الاثاث ۔ و افررخت خانہ اصل میں یہ اث ( ن ) سے مشتق ہے کس کے معنی زیادہ اور گنجان ہونا کے ہیں ۔ پھر یہ لفظ ( اثاث ) ہر قسم کے فراواں مال پر بولاجانے لگا ہے اور متاع کی طرح اس کا بھی واحد نہیں آتا اس کی جمع اثاث ( بکسرالمزہ ) ہے ۔ نساء اثائث ۔ پر گوشت عورتیں گویا گوشت ان پر و افر سامان کی طرح چڑھا ہوا ہے تاثت فلان ۔ فلاں بہت زیادہ مالدار ہوگیا قرآن میں ہے :۔ { هُمْ أَحْسَنُ أَثَاثًا وَرِئْيًا } [ مریم : 74] و سازو سامان میں زیادہ تھے اور خوش منظر بھی { أَثَاثًا وَمَتَاعًا } [ النحل : 80] یعنی سازو سامان ۔ متع الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی: وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس/ 98] ، ( م ت ع ) المتوع کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس/ 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔ حين الحین : وقت بلوغ الشیء وحصوله، وهو مبهم المعنی ويتخصّص بالمضاف إليه، نحو قوله تعالی: وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص/ 3] ( ح ی ن ) الحین ۔ اس وقت کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز پہنچے اور حاصل ہو ۔ یہ ظرف مبہم ہے اور اس کی تعین ہمیشہ مضاف الیہ سے ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص/ 3] اور وہ رہائی کا وقت نہ تھا ۔
Top