Mufradat-ul-Quran - An-Nahl : 8
وَّ الْخَیْلَ وَ الْبِغَالَ وَ الْحَمِیْرَ لِتَرْكَبُوْهَا وَ زِیْنَةً١ؕ وَ یَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَّالْخَيْلَ : اور گھوڑے وَالْبِغَالَ : اور خچر وَالْحَمِيْرَ : اور گدھے لِتَرْكَبُوْهَا : تاکہ تم ان پر سوار ہو وَزِيْنَةً : اور زینت وَيَخْلُقُ : اور وہ پیدا کرتا ہے مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
اور اسی نے گھوڑے اور خچر اور گدھے (پیدا کئے) تاکہ تم ان پر سوار ہو اور (وہ تمہارے لئے) رونق وزینت (بھی ہیں) اور وہ (اور چیزیں بھی) پیدا کرتا ہے جنکی تم کو خبر نہیں۔
وَّالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيْرَ لِتَرْكَبُوْهَا وَزِيْنَةً ۭ وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ۝ خيل والخُيَلَاء : التّكبّر عن تخيّل فضیلة تراءت للإنسان من نفسه، ومنها يتأوّل لفظ الخیل لما قيل : إنه لا يركب أحد فرسا إلّا وجد في نفسه نخوة، والْخَيْلُ في الأصل اسم للأفراس والفرسان جمیعا، وعلی ذلک قوله تعالی: وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ [ الأنفال/ 60] ، ويستعمل في كلّ واحد منهما منفردا نحو ما روي : (يا خيل اللہ اركبي) «1» ، فهذا للفرسان، وقوله عليه السلام : «عفوت لکم عن صدقة الخیل» «2» يعني الأفراس . والأخيل : الشّقراق «3» ، لکونه متلوّنا فيختال في كلّ وقت أنّ له لونا غير اللون الأوّل، ( خ ی ل ) الخیلاء ۔ تکبر جو کسی ایسی فضیلت کے تخیل پر مبنی ہو جو انسان اپنے اندر خیال کرتا ہو ۔ اسی سے لفظ خیل لیا گیا ہے کیونکہ جو شخص گھوڑے پر سوار ہو وہ اپنے اندر بخت و غرور پاتا ہے ۔ دراصل خیل اندر نحوت و غرور پاتا ہے ۔ دراصل خیل کا لفظ گھوڑے اور سواروں دونوں کے مجموعہ پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ [ الأنفال/ 60] اور گھوڑو ن کے تیار رکھنے سے اور کبھی ہر ایک پر انفراد بھی بولا جاتا ہے جیسا کہ ایک روایت میں ہے (122) یاخیل اللہ ارکبی ۔ ( اے اللہ کے سوا گھوڑے پر سوار ہوجا۔ تو یہاں خیل بمعنی فا رس کے ہے اور ایک حدیث میں ہے (123) عفوت لکم عن صدقۃ الخیل کہ میں نے تمہیں گھوڑوں کا صدقہ معاف کیا الاخیل ۔ شقرا ( ایک پرندہ ) کو کہاجاتا ہے کیونکہ وہ رنگ بدلتا رہتا ہے ۔ اور ہر لحظہ یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ دوسرے رنگ کا ہے ۔ اس ی بناپر شاعر نے کہا ہے ( مجرد الکامل) (149) کا بی براقش کل لومن نہ یتخیل ابوبراقش کی طرح جو ہر آن نیا رنگ بدلتا ہے ۔ بغل قال اللہ تعالی: وَالْخَيْلَ وَالْبِغالَ وَالْحَمِيرَ [ النحل/ 8] ، والبَغْل : المتولّد من بين الحمار والفرس، وتَبَغَّلَ البعیر : تشبّه به في سعة مشيه، وتصوّر منه عرامته وخبثه، فقیل في صفة النذل : هو بغل . ( ب غ ل ) البغل ( خچر اوہ جانور جو گدھے اور گھوڑی کے باہم ملاپ سے پیدا ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَالْخَيْلَ وَالْبِغالَ وَالْحَمِيرَ [ النحل/ 8] اور اسی نے گھوڑے اور خچر اور گدھے ۔ تبغل البعیر اونٹ کا خچر کی طرح تیز چلنا ۔ کبھی خچر کی شرارت اور خباثت کے پیش نظر کمینے شخص کو بھی بغل کہہ دیا جاتا ہے ۔ ركب الرُّكُوبُ في الأصل : كون الإنسان علی ظهر حيوان، وقد يستعمل في السّفينة، والرَّاكِبُ اختصّ في التّعارف بممتطي البعیر، وجمعه رَكْبٌ ، ورُكْبَانٌ ، ورُكُوبٌ ، واختصّ الرِّكَابُ بالمرکوب، قال تعالی: وَالْخَيْلَ وَالْبِغالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً [ النحل/ 8] ، فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ ) رک ب ) الرکوب کے اصل معنی حیوان کی پیٹھ پر سوار ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً [ النحل/ 8] تاکہ ان سے سواری کا کام لو اور ( سواری کے علاوہ یہ چیزیں ) موجب زینت ( بھی ) ہیں ۔ مگر کبھی کشتی وغیرہ سواری ہونے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ [ العنکبوت/ 65] پھر جب لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں ۔ زين الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، ( زی ن ) الزینہ زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں
Top