Mufradat-ul-Quran - Al-Israa : 37
وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا١ۚ اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا
وَلَا تَمْشِ : اور نہ چل فِي الْاَرْضِ : زمین میں مَرَحًا : اکڑ کر (اتراتا ہوا) اِنَّكَ : بیشک تو لَنْ تَخْرِقَ : ہرگز نہ چیر ڈالے گا الْاَرْضَ : زمین وَلَنْ تَبْلُغَ : اور ہرگز نہ پہنچے گا الْجِبَالَ : پہاڑ طُوْلًا : بلندی
اور زمین پر اکڑ کر (اور تن کر) مت چل کہ تو زمین کو پھاڑ تو نہیں ڈالے گا اور نہ لمبا ہو کر پہاڑوں کی چوٹی تک پہنچ جائے گا۔
وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا ۚ اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا 37؀ مشی المشي : الانتقال من مکان إلى مکان بإرادة . قال اللہ تعالی: كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، وقال : فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور/ 45] ، إلى آخر الآية . يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک/ 15] ، ويكنّى بالمشي عن النّميمة . قال تعالی: هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم/ 11] ، ويكنّى به عن شرب المسهل، فقیل : شربت مِشْياً ومَشْواً ، والماشية : الأغنام، وقیل : امرأة ماشية : كثر أولادها . ( م ش ی ) المشی ( ج ) کے معنی ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف قصد اور ارادہ کے ساتھ منتقل ہونے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی چمکتی اور ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور/ 45] ان میں سے بعض ایسے ہیں جو پیٹ کے بل چلتے ہیں يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں ۔ فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک/ 15] تو اس کی راہوں میں چلو پھرو ۔ اور کنایۃ می کا لفظ چغلی کھانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم/ 11] طعن آمیز اشارتیں کرنے والا چغلیاں لئے پھرنے والا ۔ اور کنایۃ کے طور پر مشئی کے معنی مسہل پینا بھی آتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ شربت مشیا ومشو ا میں نے مسہل دواپی الما شیۃ مویشی یعنی بھیڑ بکری کے ریوڑ کو کہتے ہیں اور امراۃ ماشیۃ اس عورت کو کہتے ہیں جس کے بچے بہت ہوں ۔ مرح المَرَحُ : شدّة الفرح والتّوسّع فيه، قال تعالی: وَلا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحاً [ الإسراء/ 37] وقرئ : ( مَرِحاً ) «3» أي : فَرِحاً ، ومَرْحَى: كلمة تعجّب . ( م ر ح ) المرح کے معنی ہیں بہت زیادہ اور شدت کی خوشی جس میں انسان اترانے لگ جائے قرآن میں ہے : وَلا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحاً [ الإسراء/ 37] اور زمین پر اکڑا کر ( اور اٹھلاکر ) مت چل ۔ اس میں ایک قرآت مرحا بمعنی فرحا بھی ہے ۔ مرحی یہ کلمہ تعجب ہے ( اور احسنت یا اصبت کی جگہ استعمال ہوتا ہے ) یعنی خوب کیا کہنے ہیں خرق الخَرْقُ : قطع الشیء علی سبیل الفساد من غير تدبّر ولا تفكّر، قال تعالی: أَخَرَقْتَها لِتُغْرِقَ أَهْلَها[ الكهف/ 71] ، وهو ضدّ الخلق، فإنّ الخلق هو فعل الشیء بتقدیر ورفق، والخرق بغیر تقدیر، قال تعالی: وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَناتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 100] ، أي : حکموا بذلک علی سبیل الخرق، وباعتبار القطع قيل : خَرَقَ الثوبَ ، وخَرَّقَه، وخَرَقَ المفاوز، واخْتَرَقَ الرّيح . وخصّ الخَرْق والخریق بالمفاوز الواسعة، إمّا لاختراق الریح فيها، وإمّا لتخرّقها في الفلاة، وخصّ الخرق بمن ينخرق في السخاء «1» . وقیل لثقب الأذن إذا توسّع : خرق، وصبيّ أَخْرَقُ ، وامرأة خَرْقَاء : مثقوبة الأذن ثقبا واسعا، وقوله تعالی: إِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ [ الإسراء/ 37] ، فيه قولان : أحدهما : لن تقطع، والآخر : لن تثقب الأرض إلى الجانب الآخر، اعتبارا بالخرق في الأذن، وباعتبار ترک التقدیر قيل : رجل أَخْرَقُ ، وخَرِقُ ، وامرأة خَرْقَاء، وشبّه بها الریح في تعسّف مرورها فقیل : ريح خرقاء . وروي : «ما دخل الخرق في شيء إلّا شانه» «2» . ومن الخرق استعیرت المَخْرَقَة، وهو إظهار الخرق توصّلا إلى حيلة، والمِخْرَاق : شيء يلعب به، كأنّه يخرق لإظهار الشیء بخلافه، وخَرِقَ الغزال «3» : إذا لم يحسن أن يعدو لخرقه . ( خ ر ق ) الخرق ( ض) کسی چیز کو بلا سوچے سمجھے بگاڑنے کے لئے پھا ڑ ڈالنا ۔ قرآن میں ہے :۔ أَخَرَقْتَها لِتُغْرِقَ أَهْلَها[ الكهف/ 71] کیا آپ نے اسکو اس لئے پھاڑا ہے کہ مسافروں کو غرق کردیں ۔ خرق خلق کی ضد ہے ۔ جس کے معنی اندازہ کے مطابق خوش اسلوبی سے کسی چیز کو بنانا کے ہیں ۔ اور خرق کے معنی کسی چیز کو بےقاعدگی سے پھاڑ ڈالنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَناتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 100] اور لے سمجھے ( جھوٹ بہتان ) اس کے لئے بیٹے اور بیٹیاں بنا گھڑی ہیں ۔ یعنی بےسوچے سمجھے یہ بات کہتے ہیں ۔ پھر معنی قطع کے اعتبار سے کہا جاتا ہے : خرق الثوب وخرقہ کپڑے کو پھاڑ ڈالا خرق المف اور ریگستان طے کئے اخترق الریح ہوا کا تیز چلنا ۔ الخرق والخریق خاص کر کشادہ بیابان کو کہاجاتا ہے اس لئے کہ اس میں ہوائیں تیزی سے چلتی ہیں اور یا اس لئے ک وہ وسیع ریگستان کی صورت میں پھیلا ہوا ہوتا ہے ۔ الخرق ( خاص ) کپڑے میں سوراخ اور کان میں کشادہ سوراخ ۔ صبی اخرق امراۃ خرقاء جس کے کان میں کشادہ چھید ہو اور آیت کریمہ :۔ إِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ [ الإسراء/ 37] کی تفسیر میں دو قول ہیں ایک یہ کہ تو زمین کو طے نہیں کرسکے گا ۔ یا یہ کہ تو زمین کو پانے پاؤں سے پھاڑ نہیں ڈالے گا ۔ یہ دوسرا معنی خرق فی الاذن سے ماخوذ ہے اور بےسوچے سمجھے کام کرنے کے اعتبار سے احمق اور نادان شخص کو اخرق وخرق کہاجاتا ہے اس کی مونث خرقاء ہے ۔ اور تند ہوا کو بھی خرقاء کہہ دیا جاتا ہے ۔ اور تند ہوا کو بھی خرقاء کہہ دیا جاتا ہے ۔ ایک روایت میں ہے (108) مادخل الخرق فی شئی الا شانہ جس چیز میں نادانی کا عمل دخل ہو وہ عیب ناک ہوجاتی ہے اور خرق سے مخرقۃ کا لفظ لیا گیا ہے جس کے معنی کسی کام میں حیلہ جوئی کے لئے بےوقوفی کا اظہار کرنے کے ہیں ۔ المخراق کپڑے کا کوڑا جس سے بچے کھلیتے ہیں گویا اسے بھی کسی چیز کو واقع کے خلاف ظاہر کرنے کے لئے بنایا جاتا ہے ۔ خرق الغزال ہر ن کا نادانی کی وجہ سے دوڑ نہ سکنا ۔ جبل الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل : أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] ( ج ب ل ) قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا " ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟ طول الطُّولُ والقِصَرُ من الأسماء المتضایفة كما تقدّم، ويستعمل في الأعيان والأعراض کالزّمان وغیره قال تعالی: فَطالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ [ الحدید/ 16] ، سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] ، ويقال : طَوِيلٌ وطُوَالٌ ، و عریض وعُرَاضٌ ، وللجمع : طِوَالٌ ، وقیل : طِيَالٌ ، وباعتبار الطُّولِ قيل للحبل المرخيِّ علی الدّابة : طِوَلٌ «3» ، وطَوِّلْ فرسَكَ ، أي : أَرْخِ طِوَلَهُ ، وقیل : طِوَالُ الدّهرِ لمدّته الطَّوِيلَةِ ، وَتَطَاوَلَ فلانٌ: إذا أظهر الطُّولَ ، أو الطَّوْلَ. قال تعالی: فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص/ 45] ، وَالطَّوْلُ خُصَّ به الفضلُ والمنُّ ، قال : شَدِيدِ الْعِقابِ ذِي الطَّوْلِ [ غافر/ 3] ، وقوله تعالی: اسْتَأْذَنَكَ أُولُوا الطَّوْلِ مِنْهُمْ [ التوبة/ 86] ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا[ النساء/ 25] ، كناية عمّا يصرف إلى المهر والنّفقة . وطَالُوتُ اسمٌ عَلَمٌ وهو أعجميٌّ. ( ط و ل ) الطول یہ اسمائے اضافیہ سے ہے ۔ اور اس کے معنی دراز اور لمبا ہونا کے ہیں یہ القصر کے مقابلہ میں آتا ہے اور اعیان واعرراض مثلا زمانہ وغیرہ سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَطالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ [ الحدید/ 16] پھر ان پر لمبا عرصہ گزر گیا ۔ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] بہت لمبے شغل ( ہوتے ہیں ) طول طول جیسے عریض و عریض دراز لمبا اس کی جمع طوال آتی ہے اور بعض نے طیال بھی کہا ہے اور لمبا ہونے کی مناسبت سے جانور کی پچھاڑی کی رسی کو طول کہا جاتا ہے طول کہا جاتا ہے طول فرسک اپنے گھوڑے کی پچھاڑی باندھ دے ۔ طوال الدھر عرصہ دارز ۔ تطاول فلان درازی یا وسعت کو ظاہر کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص/ 45] پھر ان پر لمبا عرسہ گزر گیا ۔ اور طول کا لفظ خاص کر فضل و احسان کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ شَدِيدِ الْعِقابِ ذِي الطَّوْلِ [ غافر/ 3] سخت عذاب دینے والا اور صاحب کرم ہے ۔ اور آیت کریمہ : اسْتَأْذَنَكَ أُولُوا الطَّوْلِ مِنْهُمْ [ التوبة/ 86] تو جو ان میں دولتمند ہیں وہ تم سے اجازت طلب کرتے ہیں میں اولوالطول سے خوش حال طبقہ مراد ہے اور آیت کریمہ : وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا[ النساء/ 25] اور جو شخص تم میں سے مقدر نہ رکھے ۔ میں طولا کنایہ ہے اس مال سے ( جو عورت کو ) مہر میں یا نان ونفقہ کے طور پر دینا پڑتا ہے ۔ طالوت یہ اسم عجمی ہے اور بنی اسرائیل کے ایک با اقبال بادشاہ کا نام تھا ۔
Top