Mufradat-ul-Quran - Al-Israa : 4
وَ قَضَیْنَاۤ اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ فِی الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَ لَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِیْرًا
وَقَضَيْنَآ : اور صاف کہ دیا ہم نے اِلٰى : طرف۔ کو بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل فِي الْكِتٰبِ : کتاب لَتُفْسِدُنَّ : البتہ تم فساد کروگے ضرور فِي : میں الْاَرْضِ : زمین مَرَّتَيْنِ : دو مرتبہ وَلَتَعْلُنَّ : اور تم ضرور زور پکڑوگے عُلُوًّا كَبِيْرًا : بڑا زور
اور ہم نے کتاب میں بنی اسرائیل سے کہہ دیا تھا کہ تم زمین میں دو دفعہ فساد مچاؤ گے اور بڑی سرکشی کرو گے
وَقَضَيْنَآ اِلٰى بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ فِي الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْاَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيْرًا ۝ قضی الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی: وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] أي : أمر بذلک، ( ق ض ی ) القضاء کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ فسد الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] ، (س د ) الفساد یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] تو آسمان و زمین سب درہم برہم ہوجائیں ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ علا العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعُلْوِيُّ والسُّفْليُّ المنسوب إليهما، والعُلُوُّ : الارتفاعُ ، وقد عَلَا يَعْلُو عُلُوّاً وهو عَالٍ وعَلِيَ يَعْلَى عَلَاءً فهو عَلِيٌّ فَعَلَا بالفتح في الأمكنة والأجسام أكثر . قال تعالی: عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان/ 21] . وقیل : إنّ ( عَلَا) يقال في المحمود والمذموم، و ( عَلِيَ ) لا يقال إلّا في المحمود، قال : إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص/ 4] ( ع ل و ) العلو کسی چیز کا بلند ترین حصہ یہ سفل کی ضد ہے ان کی طرف نسبت کے وقت علوی اسفلی کہا جاتا ہے اور العوا بلند ہونا عال صفت فاعلی بلند علی علی مگر علا ( فعل ) کا استعمال زیادہ تر کسی جگہ کے یا جسم کے بلند ہونے پر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان/ 21] ان کے بدنوں پر دیبا کے کپڑے ہوں گے ۔ بعض نے علا اور علی میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ علان ( ن ) محمود اور مذموم دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے لیکن علی ( س ) صرف مستحن معنوں میں بولا جاتا ہے : ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص/ 4] فرعون نے ملک میں سر اٹھا رکھا تھا ۔
Top