Mufradat-ul-Quran - An-Nahl : 92
وَ قَالُوْۤا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّ رُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِیْدًا
وَقَالُوْٓا : اور وہ کہتے ہیں ءَاِذَا : کیا۔ جب كُنَّا : ہم ہوگئے عِظَامًا : ہڈیاں وَّرُفَاتًا : اور ریزہ ریزہ ءَاِنَّا : کیا ہم یقینا لَمَبْعُوْثُوْنَ : پھر جی اٹھیں گے خَلْقًا : پیدائش جَدِيْدًا : نئی
اور کہتے ہیں کہ جب ہم (مر کر بوسیدہ) ہڈیاں اور چور چور ہوجائیں گے تو کیا از سرِ نو پیدا ہو کر اٹھیں گے۔
وَقَالُوْٓا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِيْدًا 49؀ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ رفت رَفَتُّ الشیء أَرْفُتُهُ رَفْتاً : فَتَّتُّهُ ، والرُّفَاتُ والْفُتَاتُ : ما تكسّر وتفرّق من التّبن ونحوه، قال تعالی: وَقالُوا أَإِذا كُنَّا عِظاماً وَرُفاتاً [ الإسراء/ 49] ، واستعیر الرُّفَاتُ للحبل المنقطع قطعة قطعة . ( رت ) الرفت یہ بات نصر کا مصدر ہے اور رفت الشئی کے معنی کسی چیز کو چورا چورا کردینے کے ہیں اور جو بھوسہ وغیرہ ریزہ ریزہ ہو کر بھکرجائے اسے رفات کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَقالُوا أَإِذا كُنَّا عِظاماً وَرُفاتاً [ الإسراء/ 49] اور کہا کرتے کہ جب ہم گل سٹر کر ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ اور استعارہ کے طور پر ( رفات اس رسی کو بھی کہتے ہیں ۔ جو پوسیدہ ہوکر ٹکڑے ہوگئ ہو ۔ بعث أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، ( ب ع ث ) البعث اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے جد الجَدُّ : قطع الأرض المستوية، ومنه : جَدَّ في سيره يَجِدُّ جَدّاً ، وکذلک جَدَّ في أمره وأَجَدَّ : صار ذا جِدٍّ ، وتصور من : جَدَدْتُ الأرض : القطع المجرد، فقیل : جددت الثوب إذا قطعته علی وجه الإصلاح، وثوب جدید : أصله المقطوع، ثم جعل لکل ما أحدث إنشاؤه، قال تعالی: بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ [ ق/ 15] ، إشارة إلى النشأة الثانية، وذلک قولهم : أَإِذا مِتْنا وَكُنَّا تُراباً ذلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ [ ق/ 3] ، وقوبل الجدید بالخلق لما کان المقصود بالجدید القریب العهد بالقطع من الثوب، ومنه قيل للیل والنهار : الجَدِيدَان والأَجَدَّان «1» ، قال تعالی: وَمِنَ الْجِبالِ جُدَدٌ بِيضٌ [ فاطر/ 27] ، جمع جُدَّة، أي : طریقة ظاهرة، من قولهم : طریق مَجْدُود، أي : مسلوک مقطوع ومنه : جَادَّة الطریق، والجَدُود والجِدَّاء من الضأن : التي انقطع لبنها . وجُدَّ ثدي أمه علی طریق الشتم وسمي الفیض الإلهي جَدّاً ، قال تعالی: وَأَنَّهُ تَعالی جَدُّ رَبِّنا [ الجن/ 3] ، أي : فيضه، وقیل : عظمته، وهو يرجع إلى الأوّل، وإضافته إليه علی سبیل اختصاصه بملکه، وسمي ما جعل اللہ للإنسان من الحظوظ الدنیوية جَدّاً ، وهو البخت، فقیل : جُدِدْتُ وحُظِظْتُ وقوله عليه السلام : «لا ينفع ذا الجَدِّ منک الجَدُّ» أي : لا يتوصل إلى ثواب اللہ تعالیٰ في الآخرة بالجدّ ، وإنّما ذلک بالجدّ في الطاعة، وهذا هو الذي أنبأ عنه قوله تعالی: مَنْ كانَ يُرِيدُ الْعاجِلَةَ عَجَّلْنا لَهُ فِيها ما نشاء لِمَنْ نُرِيدُ [ الإسراء/ 18] ، وَمَنْ أَرادَ الْآخِرَةَ وَسَعى لَها سَعْيَها وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولئِكَ كانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُوراً [ الإسراء/ 19] ، وإلى ذلك أشار بقوله : يَوْمَ لا يَنْفَعُ مالٌ وَلا بَنُونَ [ الشعراء/ 88] . والجَدُّ : أبو الأب وأبو الأم . وقیل : معنی «لا ينفع ذا الجدّ» : لا ينفع أحدا نسبه وأبوّته، فکما نفی نفع البنین في قوله : يَوْمَ لا يَنْفَعُ مالٌ وَلا بَنُونَ [ الشعراء/ 88] ، کذلک نفی نفع الأبوّة في هذا الحدیث . ( ج د د ) الجد ( مصدر رض ) کے اصل معنی ہمورار زمین پر چلنے کے ہیں ۔ اسی سے جد فی سیرہ ہے جس کے معنی تیز ردی کے ہیں اور جب کوئی شخص اپنے معاملات میں محنت اور جا نفشاتی سے کام کرے تو کہا جاتا ہے جد فی امرہ اور اجد ( افعال ) کے معنی صاحب جد ہونے کے ہیں اور جددت الارض سے کسی چیز کو کا ٹتے کا معنی لیا جاتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے جددتۃ ( میں نے درست کرنے کے لئے اسے کا تا ) اور ثواب جدید کے اصل؛ معنی قطع کئے ہوئے کپڑا کے ہیں اور چونکہ جس کپڑے کو کاٹا جاتا ہے وہ عموما نیا ہوتا ہے اس لئے ہر نئی چیز کو جدید جہا جانے لگا ہے اس بنا پر ایت : ۔ بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ [ ق/ 15] میں خلق جدید سے نشاۃ ثانیہ یعنی مرنے کے بعد دوبارہ نئے سرے سے پیدا ہونا مراد ہے کیونکہ کفار اس کا انکار کرتے ہوئے کہتے تھے ۔ أَإِذا مِتْنا وَكُنَّا تُراباً ذلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ [ ق/ 3] بھلا جب ہم مرگئے اور متی ہوگئے تو پھر زندہ ہوں گے ؟ یہ زندہ ہونا عقلیہ ہے ) بعید ہی اور جدید دنیا ) خلق یعنی پرانا کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اس اعتبار سے رات دن کو عبدید ان اور اجدان کہا جاتا ہے ۔ اور آیت : ۔ وَمِنَ الْجِبالِ جُدَدٌ بِيضٌ [ فاطر/ 27] اور پہاڑوں میں سفید رنگ کے قطعات ہیں میں جدد کا واھد جدۃ ہے کس کے معنی کھلے راستہ کے ہیں اور یہ طریق مجژود کے محاورہ سے ماخوذ ہے یعنی وہ راستہ جس پر چلا جائے اسی سے جا دۃ الطریق ہے جس کے معنی شاہراہ یا ہموار اور راستہ کے درمیانی حصہ کے ہیں جس پر عام طور پر آمد ورفت ہوتی رہتی ہے ) الجدود والجداء خشک تھنوں والی بھیڑ بکری اور سب وشتم کے طور پر کہا جاتا ہے ۔ جد ثدی امہ اس کی ماں کے پستان خشک ہوجائیں اور جد کا لفظ فیظ الہی پر معنی بولا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَأَنَّهُ تَعالی جَدُّ رَبِّنا [ الجن/ 3] اور یہ کہ ہماری پروردگار کا فیضان بہت بڑا ہے ۔ میں جد بمعنی فیض الہی ہی کے ہے ۔ بعض کے نزدیک اس کے معنی عظمت کے ہیں لیکن اس کا مرجع بھی معنی والی کی طرف ہی ہے اور اللہ تعالے کی طرف اس کی اضافت اختصاص ملک کے طریق سے ہے اور حظوظ دینوی جو اللہ تعالے انسان کو بخشتا ہے پر بھی جد کا لفظ بولا جاتا ہے جس کے معنی بخت ونصیب کے ہیں جیسے کہا جاتا ہے جددت وحظظت خوش قسمت اور صاحب نصیب ہوگیا اور حدیث کے معنی یہ ہیں کہ دنیاوی مال وجاہ سے آخرت میں ثواب حاصل نہیں ہوسکے گا بلکہ آخروی ثواب کے حصول کا ذریعہ صرف طاعت الہی ہے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ مَنْ كانَ يُرِيدُ الْعاجِلَةَ عَجَّلْنا لَهُ فِيها ما نشاء لِمَنْ نُرِيدُ [ الإسراء/ 18] کے بعد فرمایا : ۔ وَمَنْ أَرادَ الْآخِرَةَ وَسَعى لَها سَعْيَها وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولئِكَ كانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُوراً [ الإسراء/ 19] اور جو شخص آخرت کا خواستکا ر ہو اور اور اس میں اتنی کوشش کرے ۔ جتنی اسے لائق ہے اور وہ مؤمن بھی ہو تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش ٹھکانے لگتی ہے ۔ نیز اس معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ يَوْمَ لا يَنْفَعُ مالٌ وَلا بَنُونَ [ الشعراء/ 88] . جس دن نہ مال ہی کچھ فائدہ دے گا اور نہ بیٹے ۔ الجد ( ایضا ) دادا ۔ نانا ۔ بعض نے کہا ہے کہ لا ینفع ذالجد کے معنی یہ ہی کے اسے آبائی نسب فائدہ نہیں دے گا اور جس طرح کہ آیت : يَوْمَ لا يَنْفَعُ مالٌ وَلا بَنُونَ [ الشعراء/ 88] ہیں اولاد کے فائدہ بخش ہونے کی نفی کی ہے اسی طرح حدیث میں اباؤ اجداد کے نفع بخش ہونے کی نفی کی گئی ہے ۔
Top