Mufradat-ul-Quran - Al-Israa : 5
فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا بَعَثْنَا عَلَیْكُمْ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّیَارِ وَ كَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا
فَاِذَا : پس جب جَآءَ : آیا وَعْدُ : وعدہ اُوْلٰىهُمَا : دو میں سے پہلا بَعَثْنَا : ہم نے بھیجے عَلَيْكُمْ : تم پر عِبَادًا لَّنَآ : اپنے بندے اُولِيْ بَاْسٍ : لڑائی والے شَدِيْدٍ : سخت فَجَاسُوْا : تو وہ گھس پڑے خِلٰلَ الدِّيَارِ : شہروں کے اندر وَكَانَ : اور تھا وَعْدًا : ایک وعدہ مَّفْعُوْلًا : پورا ہونے والا
پس جب پہلے (وعدے) کا وقت آیا تو ہم نے اپنے سخت لڑائی لڑنے والے بندے تم پر مسلط کردیئے اور وہ شہروں کے اندر پھیل گئے اور وہ وعدہ پورا ہو کر رہا
فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَآ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّيَارِ ۭ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا ۝ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰم و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ بعث أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، ( ب ع ث ) البعث اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ بؤس البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ : الشدة والمکروه، إلا أنّ البؤس في الفقر والحرب أكثر، والبأس والبأساء في النکاية، نحو : وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْساً وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا [ النساء/ 84] ، فَأَخَذْناهُمْ بِالْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ [ الأنعام/ 42] ، وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ [ البقرة/ 177] ، وقال تعالی: بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر/ 14] ، وقد بَؤُسَ يَبْؤُسُ ، وبِعَذابٍ بَئِيسٍ [ الأعراف/ 165] ، فعیل من البأس أو من البؤس، فَلا تَبْتَئِسْ [هود/ 36] ، أي : لا تلزم البؤس ولا تحزن، ( ب ء س) البؤس والباس البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ ۔ تینوں میں سختی اور ناگواری کے معنی پائے جاتے ہیں مگر بؤس کا لفظ زیادہ تر فقرو فاقہ اور لڑائی کی سختی پر بولاجاتا ہے اور الباس والباساء ۔ بمعنی نکایہ ( یعنی جسمانی زخم اور نقصان کیلئے آتا ہے قرآن میں ہے { وَاللهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا } ( سورة النساء 84) اور خدا لڑائی کے اعتبار سے بہت سخت ہے اور سزا کے لحاظ سے بھی بہت سخت ہے { فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ } ( سورة الأَنعام 42) پھر ( ان کی نافرمانیوں کے سبب ) ہم انہیوں سختیوں اور تکلیفوں میں پکڑتے رہے { وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ } ( سورة البقرة 177) اور سختی اور تکلیف میں اور ( معرکہ ) کا رزا ر کے وقت ثابت قدم رہیں ۔۔ { بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ } ( سورة الحشر 14) ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ بؤس یبوس ( باشا) بہادر اور مضبوط ہونا ۔ اور آیت کریمہ ۔ { بِعَذَابٍ بَئِيسٍ } ( سورة الأَعراف 165) بروزن فعیل ہے اور یہ باس یابوس سے مشتق ہے یعنی سخت عذاب میں اور آیت کریمہ ؛۔ { فَلَا تَبْتَئِسْ } ( سورة هود 36) کے معنی یہ ہیں کہ غمگین اور رنجیدہ رہنے کے عادی نہ بن جاؤ۔ شدید والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، وقال تعالی: عَلَيْها مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم/ 6] ، وقال : بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر/ 14] ، فَأَلْقِياهُ فِي الْعَذابِ الشَّدِيدِ [ ق/ 26] . والشَّدِيدُ والْمُتَشَدِّدُ : البخیل . قال تعالی: وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [ العادیات/ 8] . ( ش دد ) الشد اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں ۔ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم/ 6] تندخواہ اور سخت مزاج ( فرشتے) بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر/ 14] ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ جاس قال تعالی: فَجاسُوا خِلالَ الدِّيارِ [ الإسراء/ 5] ، أي : توسّطوها وتردّدوا بينها، ويقارب ذلک جازوا وداسوا، وقیل : الجَوْس : طلب ذلک الشیء باستقصاء، والمجوس معروف . ( ج وس ) آیت کریمہ : ۔ فَجاسُوا خِلالَ الدِّيارِ [ الإسراء/ 5] میں جاسوا کے معنی ہیں کہ وہ تمہارے دیار کے اندر گھس گئے اور ان میں خوب پھرے ( غارت گری اور ان میں خوب پھرے ( غارت گری اور قتل سے کنایہ ہے ) اور و اس کے معنی بھی اسی ( جاسوا ) کے قریب قریب ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ الجوس کے مینن کسی چیز کو استقصار کے ساتھ طلب کرنا کے ہوتے ہیں ۔ المجوس ۔ ایک معروف فرقے کا نام ہے ۔ خل الخَلَل : فرجة بين الشّيئين، وجمعه خِلَال، کخلل الدّار، والسّحاب، والرّماد وغیرها، قال تعالیٰ في صفة السّحاب : فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلالِهِ [ النور/ 43] ، فَجاسُوا خِلالَ الدِّيارِ [ الإسراء/ 5] ، قال الشاعر : 143- أرى خلل الرّماد ومیض جمر وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة/ 47] ، أي : سعوا وسطکم بالنّميمة والفساد . خِلَال : لما تخلّل به الأسنان وغیرها، يقال : خَلَّ سِنَّهُ ، وخلّ ثوبه بالخلال يَخُلُّهُ ، ولسان الفصیل بالخلال ليمنعه من الرضاع، والرّميّة بالسّهم، وفي الحدیث . «خَلِّلُوا أصابعکم» والخَلَل في الأمر کالوهن فيه، تشبيها بالفرجة الواقعة بين الشّيئين، وخَلَّ لحمه يَخِلُّ خَلًّا وخِلَالًا» : صار فيه خلل، وذلک بالهزال، قال : 144- إنّ جسمي بعد خالي لخلّ والخَلّ «5» : الطّريق في الرّمل، لتخلّل الوعورة، أي : الصعوبة إيّاه، أو لکون الطّريق متخلّلا وسطه، والخَلَّة : أيضا الخمر الحامضة، لتخلّل الحموضة إيّاها . والخِلَّة : ما يغطّى به جفن السّيف لکونه في خلالها، والخَلَّة : الاختلال العارض للنّفس، إمّا لشهوتها لشیء، أو لحاجتها إليه، ولهذا فسّر الخلّة بالحاجة والخصلة، خُلَّةُ : المودّة، إمّا لأنّها تتخلّل النّفس، أي : تتوسّطها، وإمّا لأنّها تخلّ النّفس، فتؤثّر فيها تأثير السّهم في الرّميّة، وإمّا لفرط الحاجة إليها، يقال منه : خاللته مُخَالَّة وخِلَالًا فهو خلیل، وقوله تعالی: وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْراهِيمَ خَلِيلًا [ النساء/ 125] ، قيل : سمّاه بذلک لافتقاره إليه سبحانه في كلّ حال الافتقار المعنيّ بقوله : إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص/ 24] ، وعلی هذا الوجه قيل :( اللهمّ أغنني بالافتقار إليك ولا تفقرني بالاستغناء عنك) وقیل : بل من الخلّة، واستعمالها فيه کاستعمال المحبّة فيه، قال أبو القاسم البلخيّ : هو من الخلّة لا من الخلّة، قال : ومن قاسه بالحبیب فقد أخطأ، لأنّ اللہ يجوز أن يحبّ عبده، فإنّ المحبّة منه الثناء ولا يجوز أن يخالّه، وهذا منه اشتباه، فإنّ الخلّة من تخلّل الودّ نفسه ومخالطته، کقوله : قد تخلّلت مسلک الرّوح منّي ... وبه سمّي الخلیل خلیلا ولهذا يقال : تمازج روحانا . والمحبّة : البلوغ بالودّ إلى حبّة القلب، من قولهم : حببته : إذا أصبت حبّة قلبه، لکن إذا استعملت المحبّة في اللہ فالمراد بها مجرّد الإحسان، وکذا الخلّة، فإن جاز في أحد اللّفظین جاز في الآخر، فأمّا أن يراد بالحبّ حبّة القلب، والخلّة التّخلّل، فحاشا له سبحانه أن يراد فيه ذلك . وقوله تعالی: لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خُلَّةٌ [ البقرة/ 254] ، أي : لا يمكن في القیامة ابتیاع حسنة ولا استجلابها بمودّة، وذلک إشارة إلى قوله سبحانه : وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى [ النجم/ 39] ، وقوله : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خِلالٌ [إبراهيم/ 31] ، فقد قيل : هو مصدر من خاللت، وقیل : هو جمع، يقال : خلیل وأَخِلَّة وخِلَال والمعنی كالأوّل . ( خ ل ل ) الخلل ۔ دو چیزوں کے درمیان کشاد گی اور فاصلہ کو کہتے ہیں مچلا بادل اور گھروں کے درمیا کا فاصلہ یا راکھ وغیرہ کا اندرونی حصہ اس کی جمع خلال ہے ۔ چناچہ بادل کے متعلق فرمایا : فَجاسُوا خِلالَ الدِّيارِ [ الإسراء/ 5] تم دیکھتے ہو کہ اس کے بیچ میں سے بارش برسنے لگتی ہے ۔ اور گھروں کے متعلق فرمایا : اور وہ شہروں کے اندر پھیل گئے ۔ شاعر نے کہا ہے میں راکھ کے اندر آگ کے انگارے کی چمک دیکھتا ہوں ۔ اور آیت کریمہ : وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة/ 47] اور تم میں دوڑے دوڑے پھرتے ۔ یعنی چغل خواری اور اور فساد سے تمہارے درمیان فتنہ انگیزی کی کوشش کرتے ۔ الخلال ۔ دانت وغیرہ کرنیکا تنکا کہا جاتا ہے ۔ کل سنتہ اس نے اپنے دانت صاف کیا خل ثوبتہ ( کپڑے میں سوراخ کرنا ۔ خل ( ن ) لسان الفصیل اونٹ کے بچے کی زبان کو چھید کر تھوتھنی ڈالنا تاکہ اونٹنی کا دودھ نہ پی سکے ۔ خل الرمیتہ بالسھم ( نشانہ پر تیر مار کر سوراخ کردیا ) ( وضوس میں انگلیوں کا خلال کیا ز کرو ۔ الخلل فی الامر کسی کام میں خرابی کا پیدا ہوجاتا ۔ جیسا کہ دو چیزوں کے درمیان رخنہ پڑجاتا ہے ۔ کل ( ض ) خلا وخلالا ۔ لحمیہ گوشت کا وبلا اور کم ہوجانا ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( مدید ) ان جسمی بعد خالی کخل کہ ماموں کے مرنے کے بعد میرا جسم گھل گیا ہے ۔ الخلتہ ۔ ییگ زار کے اندر راستہ کو کہتے ہیں اور اسے خلتہ یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ دشوار گزار ہوتا ہے اور یا اس لئے کہ وہ راستہ ریگ زار کے اندر سے گزرتا ہے ۔ نیز ترش سر کہ کو بھی خلتہ کہتے ہیں ۔ کیونکہ ترشی اسی میں سرایت کئے ہوتی ہے ۔ الخلتہ تلوار کی نیام کا چمڑا جو اس کے اوپر منڈھا ہوا ہوتا ہے ۔ نیام چونکہ اس کے اندر رہتی ہے اس لئے اس چمڑے کو خلتہ کہا جاتا ہے ۔ الخلتہ ( ایضا) طبیعت کی خرابی یا عارضہ جو کسی چیز کی خواہش یا سخت احتیاج کی وجہ سے پیدا ہوجاتا ہے اس لئے خلتہ کے معنی حاجت اور خصلت بیان کئے جاتے ہیں الخلتہ دوستی محبت اور دوستی کو خلتہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ دل کے اندر سرایت کر جاتی ہے ۔ اور یا اس لئے کہ وہ دل کے اندر داخل ہوکر اس طرح اثر کرتی ہے جس طرح تیر نشانہ پر لگ کر اس میں نشان ڈال دیتا ہے ۔ اور یا اس لئے کہ اس کی سخت احتیاج ہوتی ہے ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے : اور آیت کریمہ : وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْراهِيمَ خَلِيلًا [ النساء/ 125] اور خدا نے ابراہیم کو اپنا دوست بنایا تھا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس لئے خلیل کہا ہے کہ وہ ہر حال میں باری تعالیٰ کے محتاج تھے اور یہ احتیاج ویسے ہی ہے ۔ جس کی طرف آیت ؛ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص/ 24] میں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے ۔ میں اشارہ پایا جاتا ہے ۔ اسی معنی میں کہا گیا ہے ؛ اے اللہ مجھے اپنی احتیاج کے ساتھ غنی کر اور اپنی ذات سے بےنیاز کر کے کسی دوسرے کا محتاج نہ بنا ۔ بعض نے کہا ہے کہ خلیل خلتہ سے ہے اور اللہ کے حق میں خلتہ کے لفظ کے وہی معنی ہیں جو لفظ محبت کے ہیں ۔ ابو القاسم البلخی کا ذ کہنا کہ یہ خلتہ ( احتیاج ) سے ہے اور کلتہ ( دوستی ) سے نہیں ہے ۔ جو لوگ اسے حبیب پر قیاس کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کسی بندے سے محبت کرنا تو جائز ہے اسی لئے کہ محبت اس کی ثنا مین داخل ہے ۔ لیکن خلتہ کے معنی دوستی کے دل میں سرایت کر جانے کے ہیں ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع تم میرے لئے بمنزلہ روح کے ہوا ( اور اسی سبب سے خلیل کو خلیل کہا جاتا ہے اسی بنا پر مشہور محاورہ ہے ۔ تمازج روح ۔ ہماری روحیں باہم مخلوط ہیں ۔ اور محبت کے معنی ھبہ قلب میں دوستی رچ جانے کے ہیں یہ حبیبتہ سے مشتق ہے جس کے معنی حبہ پر مارنے کے ہیں ۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کے متعلق محبت کا لفظ استعمال ہو تو اس سے مراد اھسان اور مہربانی کے ہوتے ہیں لہذا یہی معنی خلتہ سے مراد ہوں گے ۔ کیونکہ اگر ایک میں یہ تاویل صحیح ہے تو دوسرے میں بھی ہوسکتی ہے ۔ مگر حب سے حبتہ القلب مراد لینا اور خلتہ سے اللہ تعالیٰ کے حق میں تخلل کاز معنی لینا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ ذات باری تعالیٰ ان باتوں سے بلند ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خُلَّةٌ [ البقرة/ 254] جس میں نہ ( اعمال ) کا سودا ہوگا اور نہ دوستی کام آئے گی ۔ کے معنی یہ ہیں کہ قیامت کے دن نہ تو حسنات کی خرید وفروخت ہوگی اور نہ ہی یہ مودت کے ذریعہ حاصل ہوسکیں گی تو گویا یہ آیت : وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى [ النجم/ 39] اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے ) کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خِلالٌ [إبراهيم/ 31] جس میں نہ ( اعمال کا ) سودا ہوگا اور نہ دوستی کام آئیگی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ خلال باب معاعلہ سے مصدر ہے ۔ اور بعض کے نزدیک یہ خلیل کی جمع ہے کیونکہ اس کی جمع اخلتہ وخلال دونوں آتی ہیں اور یہ پہلی ایت کے ہم معنی ہے ۔ دار الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ، أي : الجنة، ( د و ر ) الدار ۔ منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ فعل الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، (ع ل ) الفعل کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔
Top