Mufradat-ul-Quran - Al-Israa : 6
ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَیْهِمْ وَ اَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ جَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِیْرًا
ثُمَّ : پھر رَدَدْنَا : ہم نے پھیر دی لَكُمُ : تمہارے لیے الْكَرَّةَ : باری عَلَيْهِمْ : ان پر وَاَمْدَدْنٰكُمْ : اور ہم نے تمہیں مدد دی بِاَمْوَالٍ : مالوں سے وَّبَنِيْنَ : اور بیٹے وَجَعَلْنٰكُمْ : اور ہم نے تمہیں کردیا اَكْثَرَ : زیادہ نَفِيْرًا : جتھا (لشکر)
پھر ہم نے دوسری بار تم کو ان پر غلبہ دیا اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد کی اور تم کو جماعت کثیر بنایا
ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَاَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِيْنَ وَجَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِيْرًا ۝ رد الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( رد د ) الرد ( ن ) اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ مد أصل المَدّ : الجرّ ، ومنه : المُدّة للوقت الممتدّ ، ومِدَّةُ الجرحِ ، ومَدَّ النّهرُ ، ومَدَّهُ نهرٌ آخر، ومَدَدْتُ عيني إلى كذا . قال تعالی: وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه/ 131] . ومَدَدْتُهُ في غيّه، ومَدَدْتُ الإبلَ : سقیتها المَدِيدَ ، وهو بزر ودقیق يخلطان بماء، وأَمْدَدْتُ الجیشَ بِمَدَدٍ ، والإنسانَ بطعامٍ. قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان/ 45] . ( م د د ) المد کے اصل معنی ( لمبائی میں ) کهينچنا اور بڑھانے کے ہیں اسی سے عرصہ دراز کو مدۃ کہتے ہیں اور مدۃ الجرح کے معنی زخم کا گندہ مواد کے ہیں ۔ مد النھر در کا چڑھاؤ ۔ مدہ نھر اخر ۔ دوسرا دریا اس کا معاون بن گیا ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان/ 45] تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارا رب سائے کو کس طرح دراز کرک پھیلا دیتا ہے ۔ مددت عینی الی کذا کسی کیطرف حریصانہ ۔۔ اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه/ 131] تم ۔۔ للچائی نظروں سے نہ دیکھنا ۔ ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ نفر النَّفْرُ : الانْزِعَاجُ عن الشیءِ وإلى الشیء، کالفَزَعِ إلى الشیء وعن الشیء . يقال : نَفَرَ عن الشیء نُفُوراً. قال تعالی: ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر/ 42] ، وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء/ 41] ونَفَرَ إلى الحربِ يَنْفُرُ ويَنْفِرُ نَفْراً ، ومنه : يَوْمُ النَّفْرِ. قال تعالی: انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا [ التوبة/ 41] ، إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة/ 39] ، ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 38] ، وَما کانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة/ 122] . والاسْتِنْفَارُ : حَثُّ القومِ علی النَّفْرِ إلى الحربِ ، والاسْتِنْفَارُ : حَمْلُ القومِ علی أن يَنْفِرُوا . أي : من الحربِ ، والاسْتِنْفَارُ أيضا : طَلَبُ النِّفَارِ ، وقوله تعالی: كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ [ المدثر/ 50] قُرِئَ : بفَتْحِ الفاء وکسرِها «3» ، فإذا كُسِرَ الفاءُ فمعناه : نَافِرَةٌ ، وإذا فُتِحَ فمعناه : مُنَفَّرَةٌ. والنَّفَرُ والنَّفِيرُ والنَّفَرَةُ : عِدَّةُ رجالٍ يُمْكِنُهُم النَّفْرُ. والمُنَافَرَةُ : المُحَاكَمَةُ في المُفَاخَرَةِ ، وقد أُنْفِرَ فلانٌ: إذا فُضِّلَ في المُنافرةِ ، وتقول العَرَبُ : نُفِّرَ فلانٌ إذا سُمِّيَ باسمٍ يَزْعُمُون أنّ الشّيطانَ يَنْفِرُ عنه، قال أعرابيٌّ: قيل لأبي لَمَّا وُلِدْتُ : نَفِّرْ عنه، فسَمَّانِي قُنْفُذاً وكَنَّانِي أبا العَدَّاء . ونَفَرَ الجِلْدُ : وَرِمَ. قال أبو عبیدة : هو من نِفَارِ الشیءِ عن الشیء . أي : تَبَاعُدِهِ عنه وتَجَافِيهِ ( نر ) النفر ( عن کے معیو کسی چیز سے رو گردانی کرنے اور ( الی کے ساتھ ) کسی کی طرف دوڑنے کے ہیں جیسا کہ نزع کا لفظ الیٰ اور عن دونوں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے محاورہ ہے نفر عن الشئی نفورا کسی چیز سے دور بھاگنا ۔ قرآن میں ہے ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر/ 42] تو اس سے ان کی نفرت ہی بڑھی ۔ وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء/ 41] مگر وہ اس سے اور بدک جاتے ہیں ۔ نفر الی الحرب ( ض ن ) نفر لڑائی کیلئے نکلنا اور اسی سی ذی الحجہ کی بار ھویں تاریخ کو یوم النفر کہا جاتا ہے کیوں کہ اس روز حجاج منیٰ سے مکہ معظمہ کو واپس ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا[ التوبة/ 41] تم سبکسار ہو یا گراں بار ( یعنی مال واسباب تھوڑا رکھتے ہو یا بہت گھروں سے نکل آؤ ۔ إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة/ 39] اگر نہ نکلو گے تو خدا تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے گا ۔ ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 38] تمہیں کیا ہوا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں جہاد کے لئے نکلو وما کان الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة/ 122] اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے الا ستنفار جنگ کے لئے نکلنے کی ترغیب دینا ( 2 ) لوگوں کو لڑائی سے بھاگ جانے پر اکسانا ( 3 ) ڈر بھاگ جانا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ [ المدثر/ 50] گویا گدھی ہیں کہ بدک جاتے ہیں ۔ میں مستنفرۃ اگر کسرہ فاء کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی نافرۃ یعنی ڈر کر بھاگنے والا کے ہوں گے اور فتح فاء کے ساتھ ہو تو منفرۃ مکہ کے ہم معنی ہوگا یعنی بھگا یا ہوا ۔ النفر والنفرۃ بھاگنے والے آدمیوں کا گروہ ۔ المنا فرۃ مفا خترہ میں محاکمہ کرنا اسی سے انفر فلان ہے جس کے معنی مفاخرۃ میں غالب ہونے کا فیصلہ دیئے گئے کے ہیں مشہور مقولہ ہے ۔ نفر فلان ( بزعم اہل جاہلیت ) شیطان کو بھگانے کے لئے بچے کا کوئی نام رکھنا چناچہ ایک اعرابی کا بیان ہے کہ میری پیدائش پر کسی نے میرے والد سے کہا نفر عنہ کہ اس سے شیطان کو بھگاؤ ۔ تو والد نے میرا نام قنفذ اور کنیت ابوا لعدا ر کھ دی ۔ نفر الجلد جلد میں دوم ہوجانا ۔ ابو عبید کا قول ہے کہ یہ نفار الشئی عن الشئی سے ہے جس کے معنی ایک چیز کے دوسری سے دور اور الگ ہونے کے ہیں ۔
Top