Mufradat-ul-Quran - Al-Kahf : 93
حَتّٰۤى اِذَا بَلَغَ بَیْنَ السَّدَّیْنِ وَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمَا قَوْمًا١ۙ لَّا یَكَادُوْنَ یَفْقَهُوْنَ قَوْلًا
حَتّٰٓي : یہانتک کہ اِذَا بَلَغَ : جب وہ پہنچا بَيْنَ : درمیان السَّدَّيْنِ : دو دیواریں (پہاڑ) وَجَدَ : اس نے پایا مِنْ دُوْنِهِمَا : اور دونوں کے درے قَوْمًا : ایک قوم لَّا يَكَادُوْنَ : نہیں لگتے تھے يَفْقَهُوْنَ : وہ سمجھیں قَوْلًا : کوئی بات
یہاں تک کہ دو دیواروں کے درمیاں پہنچا تو دیکھا کہ ان کے اس طرف کچھ لوگ ہیں کہ بات کو سمجھ نہیں سکتے
حَتّٰٓي اِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ وَجَدَ مِنْ دُوْنِہِمَا قَوْمًا۝ 0ۙ لَّا يَكَادُوْنَ يَفْقَہُوْنَ قَوْلًا۝ 93 بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے سد السَّدُّ والسُّدُّ قيل هما واحد، وقیل : السُّدُّ : ما کان خلقة، والسَّدُّ : ما کان صنعة «1» ، وأصل السَّدِّ مصدر سَدَدْتُهُ ، قال تعالی: بَيْنَنا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا، [ الكهف/ 94] ، وشبّه به الموانع، نحو : وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس/ 9] ، وقرئ سدا «2» السُّدَّةُ : کا لظُّلَّة علی الباب تقية من المطر، وقد يعبّر بها عن الباب، كما قيل : ( الفقیر الذي لا يفتح له سُدَدُ السّلطان) «3» ، والسَّدَادُ والسَّدَدُ : الاستقامة، والسِّدَادُ : ما يُسَدُّ به الثّلمة والثّغر، واستعیر لما يسدّ به الفقر . ( س د د ) السد : ( دیوار ، آڑ ) بعض نے کہا ہے سد اور سد کے ایک ہی معنی ہیں اور بعض دونوں میں فرق کرتے ہیں کہ سد ( بضمہ سین ) اس آڑ کو کہا جاتا ہے جو قدرتی ہو اور سد ( بفتحہ سین ) مصنوعی اور بنائی ہوئی روک کو کہتے ہیں ۔ اصل میں یہ سددتہ ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی رخنہ کو بند کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَيْنَنا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا، [ الكهف/ 94] کہ ( آپ ) ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار کھینچ دیں ۔ اور تشبیہ کے طور پر ہر قسم کے موانع کو سد کہہ دیا جاتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس/ 9] اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنا دی اور ان کے پیچھے بھی ایک قراءت میں سدا بھی ہے ۔ السدۃ برآمدہ جو دروازے کے سامنے بنایا جائے تاکہ بارش سے بچاؤ ہوجائے ۔ کبھی دروازے کو بھی سدۃ کہہ دیتے ہیں جیسا کہ مشہور ہے : ۔ ( الفقیر الذي لا يفتح له سُدَدُ السّلطان) یعنی وہ فقیر جن کے لئے بادشاہ کے دروازے نہ کھولے جائیں ۔ السداد والسدد کے معنی استقامت کے ہیں اور السداد اسے کہتے ہیں جس سے رخنہ اور شگاف کو بھرا جائے ۔ اور استعارہ کے طور پر ہر اس چیز کو سداد کہا جاتا ہے جس سے فقر کو روکا جائے ۔ كَادَ ووُضِعَ «كَادَ» لمقاربة الفعل، يقال : كَادَ يفعل : إذا لم يكن قد فعل، وإذا کان معه حرف نفي يكون لما قد وقع، ويكون قریبا من أن لا يكون . نحو قوله تعالی: لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء/ 74] ، وَإِنْ كادُوا[ الإسراء/ 73] ، تَكادُ السَّماواتُ [ مریم/ 90] ، يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة/ 20] ، يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج/ 72] ، إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات/ 56] ولا فرق بين أن يكون حرف النّفي متقدما عليه أو متأخّرا عنه . نحو : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة/ 71] ، لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء/ 78] . وقلّما يستعمل في كاد أن إلا في ضرورة الشّعر «1» . قال قد كَادَ من طول البلی أن يمصحا«2» أي : يمضي ويدرس . ( ک و د ) کاد ( س ) فعل مقارب ہے یعنی کسی فعل کے قریب الوقوع ہون کو بیان کرنے کے لئے آتا ہے مثلا کا دیفعل قریب تھا وہ اس کا م کو گزرتا یعنی کرنے والا تھا مگر کیا نہیں قرآن میں لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء/ 74] تو تم کسی قدر ان کی طرف مائل ہونے ہی لگے تھے ۔ وَإِنْ كادُوا[ الإسراء/ 73] قریب تھا کہ یہ ( کافر) لگ تم اس سے بچلا دیں ۔ تَكادُ السَّماواتُ [ مریم/ 90] قریب ہے کہ ( اس فتنہ ) سے آسمان پھٹ پڑیں ۔ ؛ يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة/ 20] قریب ہے ک کہ بجلی کی چمک ان کی آنکھوں کی بصاحب کو اچک لے جائے ۔ يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج/ 72] قریب ہوتے ہیں کہ ان پر حملہ کردیں إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات/ 56] تو تو مجھے ہلا ہی کرچکا تھا ۔ اور اگر ا ن کے ساتھ حرف نفی آجائے تو اثباتی حالت کے برعکدس فعل وقوع کو بیان کرنے کیلئے آتا ہے جو قوع کے قریب نہ ہوا اور حروف نفی اس پر مقدم ہو یا متاخر دونوں صورتوں میں ایک ہی معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة/ 71] اور وہ ا یسا کرنے والے تھے نہیں ۔ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء/ 78] کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اور کاد کے بعد ا ان کا استعمال صرف ضرورت شعری کے لئے ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 387 ) قد کاد من طول البلیٰ ان یمصحا قریب تھا کہ زیادہ بوسیدہ گی کے باعث وہ سٹ جائے فقه الفِقْهُ : هو التّوصل إلى علم غائب بعلم شاهد، فهو أخصّ من العلم . قال تعالی: فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء/ 78] (ق ہ ) الفقہ کے معنی علم حاضر سے علم غائب تک پہچنچنے کے ہیں اور یہ علم سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء/ 78] ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔
Top