Mufradat-ul-Quran - Maryam : 70
ثُمَّ لَنَحْنُ اَعْلَمُ بِالَّذِیْنَ هُمْ اَوْلٰى بِهَا صِلِیًّا
ثُمَّ : پھر لَنَحْنُ : البتہ اَعْلَمُ : خوب واقف بِالَّذِيْنَ : ان سے جو هُمْ : وہ اَوْلٰى بِهَا : زیادہ مستحق اس میں صِلِيًّا : داخل ہونا
اور ہم ان لوگوں سے خوب واقف ہیں جو اس میں داخل ہونے کے زیادہ لائق ہیں۔
ثُمَّ لَنَحْنُ اَعْلَمُ بِالَّذِيْنَ ہُمْ اَوْلٰى بِہَا صِلِيًّا۝ 70 علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا اور راک کرنا أَوْلَى ويقال : فلان أَوْلَى بکذا . أي أحری، قال تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ [ الأحزاب/ 6] ، إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْراهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ [ آل عمران/ 68] ، فَاللَّهُ أَوْلى بِهِما [ النساء/ 135] ، وَأُولُوا الْأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلى بِبَعْضٍ [ الأنفال/ 75] وقیل : أَوْلى لَكَ فَأَوْلى[ القیامة/ 34] من هذا، معناه : العقاب أَوْلَى لک وبك، وقیل : هذا فعل المتعدّي بمعنی القرب، وقیل : معناه انزجر . ويقال : وَلِيَ الشیءُ الشیءَ ، وأَوْلَيْتُ الشیءَ شيئا آخرَ أي : جعلته يَلِيهِ ، والوَلَاءُ في العتق : هو ما يورث به، و «نهي عن بيع الوَلَاءِ وعن هبته» »، والمُوَالاةُ بين الشيئين : المتابعة . ۔ فلان اولیٰ بکذا فلاں اس کا زیادہ حق دار ہے قرآن میں ہے : ۔ النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ [ الأحزاب/ 6] پیغمبروں مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتے ہیں إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْراهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ [ آل عمران/ 68] ابراہیم (علیہ السلام) سے قرب رکھنے والے تو وہ لوگ ہیں جو ان کی پیروی کرتے ہیں ۔ فَاللَّهُ أَوْلى بِهِما [ النساء/ 135] تو خدا انکا خیر خواہی وَأُولُوا الْأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلى بِبَعْضٍ [ الأنفال/ 75] اور رشتہ دار آپس میں زیادہ حق دار ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ آیت : ۔ أَوْلى لَكَ فَأَوْلى[ القیامة/ 34] افسوس تم پر پھر افسوس ہے ۔ میں بھی اولٰی اسی محاورہ سے ماخوذ ہے اور اولیٰ لک وبک دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ اور معنی یہ ہیں کہ عذاب تیرے لئے اولی ہے یعنی تو عذاب کا زیادہ سزا وار ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے فعل متعدی بمعنی قرب کے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اولیٰ بمعنی انزجر سے یعنی اب بھی باز آجا ۔ ولی الشئیء دوسری چیز کا پہلی چیز کے بعد بلا فصل ہونا ۔ اولیت الشئیء الشئیء دوسری چیز کو پہلی چیز کے ساتھ ملا نا ۔ صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔
Top