Mufradat-ul-Quran - Maryam : 86
وَّ نَسُوْقُ الْمُجْرِمِیْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ وِرْدًاۘ
وَّنَسُوْقُ : اور ہانک کرلے جائیں گے الْمُجْرِمِيْنَ : گنہ گار (جمع) اِلٰى : طرف جَهَنَّمَ : جہنم وِرْدًا : پیاسے
اور گنہگاروں کو دوزخ کی طرف پیاسے ہانک لے جائیں گے
وَّنَسُوْقُ الْمُجْرِمِيْنَ اِلٰى جَہَنَّمَ وِرْدًا۝ 86ۘ ساق سَوْقُ الإبل : جلبها وطردها، يقال : سُقْتُهُ فَانْسَاقَ ، والسَّيِّقَةُ : ما يُسَاقُ من الدّوابّ. وسُقْتُ المهر إلى المرأة، وذلک أنّ مهورهم کانت الإبل، وقوله : إِلى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَساقُ [ القیامة/ 30] ، نحو قوله : وَأَنَّ إِلى رَبِّكَ الْمُنْتَهى [ النجم/ 42] ، وقوله : سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] ، أي : ملك يَسُوقُهُ ، وآخر يشهد عليه وله، وقیل : هو کقوله : كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] ، وقوله : وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ [ القیامة/ 29] ، قيل : عني التفاف الساقین عند خروج الروح . وقیل : التفافهما عند ما يلفّان في الکفن، وقیل : هو أن يموت فلا تحملانه بعد أن کانتا تقلّانه، وقیل : أراد التفاف البليّة بالبليّة نحو قوله تعالی: يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ ساقٍ [ القلم/ 42] ، من قولهم : کشفت الحرب عن ساقها، وقال بعضهم في قوله : يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ ساقٍ [ القلم/ 42] :إنه إشارة إلى شدّة «2» ، وهو أن يموت الولد في بطن الناقة فيدخل المذمّر يده في رحمها فيأخذ بساقه فيخرجه ميّتا، قال : فهذا هو الکشف عن الساق، فجعل لكلّ أمر فظیع . وقوله : فَاسْتَوى عَلى سُوقِهِ [ الفتح/ 29] ، قيل : هو جمع ساق نحو : لابة ولوب، وقارة وقور، وعلی هذا : فَطَفِقَ مَسْحاً بِالسُّوقِ وَالْأَعْناقِ [ ص/ 33] ، ورجل أَسْوَقُ ، وامرأة سَوْقَاءُ بيّنة السّوق، أي : عظیمة السّاق، والسُّوقُ : الموضع الذي يجلب إليه المتاع للبیع، قال : وَقالُوا مالِ هذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْواقِ [ الفرقان/ 7] ، والسَّوِيقُ سمّي لِانْسِوَاقِهِ في الحلق من غير مضغ ( س و ق) سوق الابل کے معنی اونٹ کو سنکانے اور چلانے کے ہیں یہ سفقتہ ( ن) کا مصدر ہے اور انسان ( انفعال ) کے معنی ہنکانے کے بعد چل پڑنے کے ہیں ان جانوروں کو جو ہنکائے جاتے ہیں سیقۃ کہا جاتا ہے ۔ اور عورت کو مہر ادا کرنے کے لئے سقت المھر الی المرءۃ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اس لئے کہ عرب حق مہر میں وعام طور پر ) اونٹ دیا کرتے تھے ۔ اور آیت : ۔ إِلى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَساقُ [ القیامة/ 30] میں امساق سے معنی پروردگار کی طرف چلنا کے ہیں جیسا کہ آیت : ۔ وَأَنَّ إِلى رَبِّكَ الْمُنْتَهى [ النجم/ 42] میں ہے یعنی تمہیں اپنے پروردگار کے پاس پہچنا ہے اور آیت سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] اس کے ساتھ چلانے والا ہوگا اور ایک ( اس کے عملوں کی ) گواہی دینے والا ۔ میں سابق سے وہ فرشتہ مراد ہے جو اسے چلا کر حساب کے لئے پیش کرے گا اور دوسرا فرشتہ شہید بطور گواہ کے اس کے ساتھ ہوگا جو اسکے حق میں یا سکے خلاف گواہی گا بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت : ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کیطرف دھکیلے جاتے ہیں کے ہم معنی ہے اور آیت : ۔ وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ [ القیامة/ 29] اور پنڈلی لپٹ جائے گی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں قبض روح کے وقت پنڈلیوں کا لپٹنا مراد لیا ہے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ان لپٹنے سے مراد موت ہے کہ زندگی میں وہ اس کے بوجھ کو اٹھا کر چلتی تھیں لیکن موت کے بعد وہ اس بار کی متحمل نہیں ہوسکیں گی ۔ بعض نے کہا ہے کہ ایک شدت کا دوسری شدت سے لپٹنا مراد ہے اسی طرح آیت : ۔ يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ ساقٍ [ القلم/ 42] جس دن پنڈلی سے کپڑا اٹھا دیا جائیگا ۔ میں پنڈلی سے کپرا ا اٹھانا صعوبت حال سے کنایہ ہے اور یہ کشفت الحرب عن ساقھا کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی لڑائی کے سخت ہوجانے ہیں ۔ بعض نے اس کی اصل یہ بیان کی ہے کہ جب اونٹنی کے پیٹ میں بچہ مرجاتا ہے تو مزمر ( جنوانے والا ) اس کے رحم کے اندر ہاتھ ڈالتا ہے : ۔ اور اسے پنڈلیوں سے پکڑ کر ذور سے باہر نکالتا ہے ۔ اور یہ کشف عن الناق کے اصل معنی ہیں پھر ہر ہولناک امر کے متعلق یہ محاورہ استعمال ہوناے لگا ہے تو یہاں بھی شدت حال سے کنایہ ہے اور آیت : ۔ فَاسْتَوى عَلى سُوقِهِ [ الفتح/ 29] اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ سوق ساق کی جمع ہے جیسے لابۃ کی جمع لوب اور فارۃ کی جمع فور آتی ہے ۔ اور اسی طرح آیت : ۔ فَطَفِقَ مَسْحاً بِالسُّوقِ وَالْأَعْناقِ [ ص/ 33] پھر ان کی ٹانگوں اور گر دنوں پر ہاتھ پھیر نے لگے ۔ میں بھی سوق صیغہ جمع ہے اور رجل اسوق کر معنی بڑی پنڈلیوں والے آدمی کے ہیں اسکی مؤنث سوقاء آتی ہے اور سوق کے معنی بازار بھی آتے ہیں جہاں خرید فروخت ہوتی ہے اور فروخت کے لئے وہاں سامان لے جایا جاتا ہے اس کی جمع اسواق ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَقالُوا مالِ هذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْواقِ [ الفرقان/ 7] یہ کیسا پیغمبر ہے کہ کھانا کھاتا ہے ۔ اور بازروں میں چلتا پھرتا ہے ۔ السویق کے معنی ستو کے ہیں کیونکہ وہ بغیر جائے حلق سے نیچے اتر جاتے ہیں ۔ جرم أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] ، ( ج ر م ) الجرم ( ض) اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام «1» ، وقال أبو مسلم : كهنّام «2» ، والله أعلم . ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ ورد الوُرُودُ أصله : قصد الماء، ثمّ يستعمل في غيره . يقال : وَرَدْتُ الماءَ أَرِدُ وُرُوداً ، فأنا وَارِدٌ ، والماءُ مَوْرُودٌ ، وقد أَوْرَدْتُ الإبلَ الماءَ. قال تعالی: وَلَمَّا وَرَدَ ماءَ مَدْيَنَ [ القصص/ 23] والوِرْدُ : الماءُ المرشّحُ للوُرُودِ ، والوِرْدُ : خلافُ الصّدر، ( ور د ) الورود ۔ یہ اصلی میں وردت الماء ( ض ) کا مصدر ہے جس کے معنی پانی کا قصد کرنے کے ہے ۔ پھر ہر جگہ کا قصد کرنے پر بولا جاتا ہے اور پانی پر پہنچنے والے کو ورود اور پانی کو مردود کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَمَّا وَرَدَ ماءَ مَدْيَنَ [ القصص/ 23] قرآن میں ہے : ۔ اور جب مدین کے پانی کے مقام پر پہنچے الوادر اس پانی کو کہتے ہیں جو وادر ہونے کے لئے تیار کیا گیا ہو
Top