Mufradat-ul-Quran - Maryam : 92
وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًاؕ
وَمَا : جبکہ نہیں يَنْۢبَغِيْ : شایان لِلرَّحْمٰنِ : رحمن کے لیے اَنْ يَّتَّخِذَ : کہ وہ بنائے وَلَدًا : بیٹا
اور خدا کو شایاں نہیں کہ کسی کو بیٹا بنائے
وَمَا يَنْۢبَغِيْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ يَّـتَّخِذَ وَلَدًا۝ 92ۭ ابتغاء (ينبغي) البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، تجاوزه أم لم يتجاوزه، فتارة يعتبر في القدر الذي هو الكمية، وتارة يعتبر في الوصف الذي هو الكيفية، يقال : بَغَيْتُ الشیء : إذا طلبت أكثر ما يجب، وابْتَغَيْتُ كذلك، قال اللہ عزّ وجل : لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 48] ، وأمّا الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ، الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ، وقولهم : يَنْبغي مطاوع بغی. فإذا قيل : ينبغي أن يكون کذا ؟ فيقال علی وجهين : أحدهما ما يكون مسخّرا للفعل، نحو : النار ينبغي أن تحرق الثوب، والثاني : علی معنی الاستئهال، نحو : فلان ينبغي أن يعطی لکرمه، وقوله تعالی: وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس/ 69] ، علی الأول، فإنّ معناه لا يتسخّر ولا يتسهّل له، ألا تری أنّ لسانه لم يكن يجري به، وقوله تعالی: وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص/ 35] . ( ب غ ی ) البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ ردی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ خواہ تجاوز کرسکے یا نہ اور بغی کا استعمال کیت اور کیفیت یعنی قدر وو صف دونوں کے متعلق ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ۔ کسی چیز کے حاصل کرنے میں جائز حد سے تجاوز ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 48 پہلے بھی طالب فسادر ہے ہیں ۔ الا بتغاء یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ { ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ } ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔ اور ینبغی ( انفعال ) بغی کا مطاوع آتا ہے اور ینبغی ایکون کذا کا محاورہ طرح استعمال ہوتا ہے ( 1) اس شے کے متعلق جو کسی فعل کے لئے مسخر ہو جیسے یعنی کپڑے کو جلا ڈالنا آگ کا خاصہ ہے ۔ ( 2) یہ کہ وہ اس کا اہل ہے یعنی اس کے لئے ایسا کرنا مناسب اور زیبا ہے جیسے کہ فلان کے لئے اپنی کرم کی وجہ سے بخشش کرنا زیبا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس/ 69] اور ہم نے ان ( پیغمبر ) کو شعر گوئی نہیں سکھلائی اور نہ وہ ان کو شایاں ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی نہ تو آنحضرت فطر تا شاعر ہیں ۔ اور نہ ہی سہولت کے ساتھ شعر کہہ سکتے ہیں اور یہ معلوم کہ آپ کی زبان پر شعر جاری نہ ہوتا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص/ 35] اور مجھ کو ایسی بادشاہ ہی عطا فرما کر میرے بعد کیسی کو شایاں نہ ہو ۔ ( دوسرے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی میرے بعد وہ سلطنت کسی کو میسر نہ ہو ) أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔
Top