Mufradat-ul-Quran - Al-Baqara : 233
وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ كَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ١ؕ وَ عَلَى الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَ كِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَهَا١ۚ لَا تُضَآرَّ وَالِدَةٌۢ بِوَلَدِهَا وَ لَا مَوْلُوْدٌ لَّهٗ بِوَلَدِهٖ١ۗ وَ عَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِكَ١ۚ فَاِنْ اَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَ تَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا١ؕ وَ اِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْۤا اَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّاۤ اٰتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
وَالْوَالِدٰتُ : اور مائیں يُرْضِعْنَ : دودھ پلائیں اَوْلَادَھُنَّ : اپنی اولاد حَوْلَيْنِ : دو سال كَامِلَيْنِ : پورے لِمَنْ : جو کوئی اَرَادَ : چاہے اَنْ يُّتِمَّ : کہ وہ پوری کرے الرَّضَاعَةَ : دودھ پلانے کی مدت وَعَلَي : اور پر الْمَوْلُوْدِ لَهٗ : جس کا بچہ (باپ) رِزْقُهُنَّ : ان کا کھانا وَكِسْوَتُهُنَّ : اور ان کا لباس بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق لَا تُكَلَّفُ : نہیں تکلیف دی جاتی نَفْسٌ : کوئی شخص اِلَّا : مگر وُسْعَهَا : اس کی وسعت لَا تُضَآرَّ : نہ نقصان پہنچایا جائے وَالِدَةٌ : ماں بِوَلَدِھَا : اس کے بچہ کے سبب وَلَا : اور نہ مَوْلُوْدٌ لَّهٗ : جس کا بچہ (باپ) بِوَلَدِهٖ : اس کے بچہ کے سبب وَعَلَي : اور پر الْوَارِثِ : وارث مِثْلُ : ایسا ذٰلِكَ : یہ۔ اس فَاِنْ : پھر اگر اَرَادَا : دونوں چاہیں فِصَالًا : دودھ چھڑانا عَنْ تَرَاضٍ : آپس کی رضامندی سے مِّنْهُمَا : دونوں سے وَتَشَاوُرٍ : اور باہم مشورہ فَلَا : تو نہیں جُنَاحَ : گناہ عَلَيْهِمَا : ان دونوں پر وَاِنْ : اور اگر اَرَدْتُّمْ : تم چاہو اَنْ : کہ تَسْتَرْضِعُوْٓا : تم دودھ پلاؤ اَوْلَادَكُمْ : اپنی اولاد فَلَا جُنَاحَ : تو گناہ نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر اِذَا : جب سَلَّمْتُمْ : تم حوالہ کرو مَّآ : جو اٰتَيْتُمْ : تم نے دیا تھا بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ بِمَا : سے۔ جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرٌ : دیکھنے والا ہے
اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ (حکم) اس شخص کے لئے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمے ہوگا کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی (تو یاد رکھو کہ) نہ تو ماں کو اس کے بچے کے سبب نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے اور اسی طرح (نان نفقہ) بچے کے وارث کے ذمے ہے اور اگر دونوں (یعنی ماں باپ) آپس کی رضامندی اور صلاح سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں اور اگر تم اپنی اولاد کو دودھ پلوانا چاہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ تم دودھ پلانے والیوں کو دستور کے مطابق ان کا حق جو تم نے دینا کیا تھا دے دو اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس کو دیکھ رہا ہے
وَالْوَالِدٰتُ يُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ يُّـتِمَّ الرَّضَاعَۃَ۝ 0 ۭ وَعَلَي الْمَوْلُوْدِ لَہٗ رِزْقُہُنَّ وَكِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۝ 0 ۭ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَہَا۝ 0 ۚ لَا تُضَاۗرَّ وَالِدَۃٌۢ بِوَلَدِھَا وَلَا مَوْلُوْدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖ۝ 0 ۤ وَعَلَي الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِكَ۝ 0 ۚ فَاِنْ اَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْہُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْہِمَا۝ 0 ۭ وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْٓا اَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّآ اٰتَيْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ۝ 0 ۭ وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۝ 233 رضع يقال : رَضَعَ المولود يَرْضِعُ ورَضِعَ يَرْضَعُ رَضَاعاً ورَضَاعَةً ، وعنه استعیر : لئيم رَاضِعٌ: لمن تناهى لؤمه، وإن کان في الأصل لمن يرضع غنمه ليلا، لئلّا يسمع صوت شخبه فلمّا تعورف في ذلک قيل : رَضُعَ فلان، نحو : لؤم، وسمّي الثّنيّتان من الأسنان الرَّاضِعَتَيْنِ ، لاستعانة الصّبيّ بهما في الرّضع، قال تعالی: وَالْوالِداتُ يُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كامِلَيْنِ لِمَنْ أَرادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضاعَةَ [ البقرة/ 233] ، فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَ [ الطلاق/ 6] ، ويقال : فلان أخو فلان من الرّضاعة، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «يحرم من الرَّضَاعِ ما يحرم من النّسب» وقال تعالی: وَإِنْ أَرَدْتُمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلادَكُمْ [ البقرة/ 233] ، أي : تسومونهنّ إرضاع أولادکم . ( ر ض ع ) بچے کا دودھ پینا ۔ اسی سے استعارہ کے طور پر انتہائی کمینے کو لئیم راضع کہا جاتا ہے ۔ درا صل یہ لفظ اس کنجوس شخص پر بولا جاتا ہے جو انتہائی بخل کی وجہ سے رات کے وقت اپنی بکریوں کے پستانوں سے دودھ چوس لے تاکہ کوئی ضرورت مند دودھ دوہنے کی آواز سنکر سوال نہ کرے ۔ پھر اس سے رضع فلان بمعنی لئم استعمال ہونے لگا ہے راضعتان بچے کے اگلے دو دانت جن کے ذریعے وپ مال کی چھاتی سے دودھ چوستا ہے ۔ اور ارضاع ( افعال ) کے معنی دودھ پلانا کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْوالِداتُ يُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كامِلَيْنِ لِمَنْ أَرادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضاعَةَ [ البقرة/ 233] اور جو شخص پوری مدت تک دودھ پلانا چاہے تو اس کی خاطر مائیں اپنی اولاد کو پورے دو برس دودھ پلائیں ۔ نیز فرمایا : ۔ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَ [ الطلاق/ 6] اگر وہ ( بچے کو ) تمہارے لئے دودھ پلانا چاہیں تو انہیں ان کی دودھ پلائی دو ۔ عام محاورہ ہے : ۔ فلان اخوہ من الرضاعۃ : ( بضم الراء ) وہ فلاں کا رضاعی بھائی ہے ۔ حدیث میں ہے : یحرم من الرضاعۃ ما یحرم من النسب ۔ جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں وہ بوجہ رضاعت کے بھی حرام ہوجاتے ہیں ۔ الاسترضاع کسی سے دودھ پلوانا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنْ أَرَدْتُمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلادَكُمْ [ البقرة/ 233] اگر تم اپنی اولاد کو ( کسی دایہ سے ) دودھ پلوانا چاہو ۔ یعنی انہیں مزدوری دے کر دودھ پلوانے کا ارادہ ہو ۔ ولد الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] ، ( و ل د ) الولد ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ حول أصل الحَوْل تغيّر الشیء وانفصاله عن غيره، وباعتبار التّغيّر قيل : حَالَ الشیء يَحُولُ حُؤُولًا، واستحال : تهيّأ لأن يحول، وباعتبار الانفصال قيل : حَالَ بيني وبینک کذا، وقوله تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال/ 24] ( ح ول ) ' الحوال ( ن ) دراصل اس کے معنی کسی چیز کے متغیر ہونے اور دوسری چیزوں سے الگ ہونا کے ہیں ۔ معنی تغییر کے اعتبار سے حال الشئی یحول حوولا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کی شے کے متغیر ہونیکے ہیں ۔ اور استحال کے معنی تغیر پذیر ہونے کے لئے مستعد ہونے کے اور معنی انفصال کے اعتبار سے حال بینی وبینک کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی میرے اور اس کے درمیان فلاں چیز حائل ہوگئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال/ 24] اور جان رکھو کہ خدا آدمی اسکے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔ تمَ تَمَام الشیء : انتهاؤه إلى حدّ لا يحتاج إلى شيء خارج عنه، والناقص : ما يحتاج إلى شيء خارج عنه . ويقال ذلک للمعدود والممسوح، تقول : عدد تَامٌّ ولیل تام، قال : وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام/ 115] ، وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ [ الصف/ 8] ، وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف/ 142] . ( ت م م ) تمام الشیء کے معنی کسی چیز کے اس حد تک پہنچ جانے کے ہیں جس کے بعد اسے کسی خارجی شے کی احتیاج باقی نہ رہے اس کی ضد ناقص یعنی وہ جو اپنی ذات کی تکمیل کے لئے ہنور خارج شے کی محتاج ہو اور تمام کا لفظ معدودات کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور مقدار وغیرہ پر بھی بولا جاتا ہے مثلا قرآن میں ہے : ۔ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام/ 115] اور تمہارے پروردگار وعدہ پورا ہوا ۔ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ [ الصف/ 8] حالانکہ خدا اپنی روشنی کو پورا کرکے رہے گا ۔ وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف/ 142] . اور دس ( راتیں ) اور ملا کر اسے پورا ( حیلہ ) کردیا تو اس کے پروردگار کی ۔۔۔۔۔ میعاد پوری ہوگئی ۔ رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو كسا الكِسَاءُ والْكِسْوَةُ : اللّباس . قال تعالی: أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ المائدة/ 89] ، وقد كَسَوْتُهُ واكْتَسَى. قال : وَارْزُقُوهُمْ فِيها وَاكْسُوهُمْ [ النساء/ 5] ، فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون/ 14] ( ک س و ) الکساء والکسوۃ کے معنی لباس کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ المائدة/ 89] یا ان کو کپڑا دینا کسوتہ ۔ میں نے اسے لباس پہنایا ۔ اکتسیٰ ( افتعال ) اس نے پہن لیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَارْزُقُوهُمْ فِيها وَاكْسُوهُمْ [ النساء/ 5] ہاں اس میں سے ان کو کھلاتے اور پہناتے رہو ۔ فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون/ 14] پھر ہڈیوں پر گوشت پوست چڑھا تا ۔ كلف وصارت الْكُلْفَةُ في التّعارف اسما للمشقّة، والتَّكَلُّفُ : اسم لما يفعل بمشقّة، أو تصنّع، أو تشبّع، ولذلک صار التَّكَلُّفُ علی ضربین : محمود : وهو ما يتحرّاه الإنسان ليتوصّل به إلى أن يصير الفعل الذي يتعاطاه سهلا عليه، ويصير كَلِفاً به ومحبّا له، وبهذا النّظر يستعمل التَّكْلِيفُ في تكلّف العبادات . والثاني : مذموم، وهو ما يتحرّاه الإنسان مراء اة، وإياه عني بقوله تعالی: قُلْ ما أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَما أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ [ ص/ 86] وقول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أنا وأتقیاء أمّتي برآء من التّكلّف» وقوله : لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة/ 286] أي : ما يعدّونه مشقّة فهو سعة في المآل . ( ک ل) التکلف ۔ کوئی کام کرتے وقت شیفتگی ظاہر کرنا باوجودیکہ اس کے کرنے میں شفقت پیش آرہی ہو اس لئے عرف میں کلفت مشقت کو کہتے ہیں اور تکلف اس کام کے کرنے کو جو مشقت تصنع یا اوپرے جی سے دکھلادے کے لئے کہا جائے اس لئے تکلیف دو قسم پر ہے محمود اور مذموم اگر کسی کا م کو اس لئے محنت سے سر انجام دے کہ وہ کام اس پر آسان اور سہل ہوجائے اور اسے اس کام کے ساتھ شیفتگی اور محبت ہوجائے تو ایسا تکلف محمود ہے چناچہ اسی معنی میں عبادات کا پابند بنانے میں تکلیف کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ اور اگر وہ تکلیف محض ریا کاری کے لئے ہو تو مذموم ہے ۔ چناچہ آیت : قُلْ ما أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَما أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ [ ص/ 86] اور اے پیغمبر ) کہہ دو کہ میں تم سے اس کا صلہ نہیں مانگتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والوں میں ہوں ۔ میں تکلیف کے یہی معنی مراد ہیں اور حدیث میں ہے (99) انا واتقیاء امتی برآء من التکلف کہ میں اور میری امت کے پرہیز گار آدمی تکلف سے بری ہیں اور آیت ؛لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة/ 286] خدا کسی شخص کو ان کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ جن احکام کو یہ مشقت سمجھتے ہیں وہ مآل کے لحاظ سے ان کے لئے وسعت کا باعث ہیں۔ ورث الوِرَاثَةُ والإِرْثُ : انتقال قنية إليك عن غيرک من غير عقد، ولا ما يجري مجری العقد، وسمّي بذلک المنتقل عن الميّت فيقال للقنيةِ المَوْرُوثَةِ : مِيرَاثٌ وإِرْثٌ. وتُرَاثٌ أصله وُرَاثٌ ، فقلبت الواو ألفا وتاء، قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر/ 19] وقال عليه الصلاة والسلام : «اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» أي : أصله وبقيّته ( ور ث ) الوارثۃ والا رث کے معنی عقد شرعی یا جو عقد کے قائم مقام ہے جو کے بغیر کسی چیز کے ایک عقد کے قائم مقام ہے کے بغیر کسی چیز کے ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دسرے کی ملکیت میں چلے جانا کئے ہیں اسی سے میت کی جانب سے جو مال ورثاء کی طرف منتقل ہوتا ہے اسے تراث اور کیراث کہا جاتا ہے اور تراث اصل میں وراث ہے واؤ مضموم کے شروع میں آنے کی وجہ سے اسے تا سے تبدیل کرلو اسے چناچہ قرآن میں سے ۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر/ 19] اور حج کے موقعہ پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا : ۔«اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» کہ اپنے مشاعر ( مواضع نسکہ ) پر ٹھہرے رہو تم اپنے باپ ( ابراہیم کے ورثہ پر ہو ۔ تو یہاں ارث کے معنی اصل اور بقیہ نشان کے ہیں ۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ فِصالُ : التّفریق بين الصّبيّ والرّضاع، قال : فَإِنْ أَرادا فِصالًا عَنْ تَراضٍ مِنْهُما [ البقرة/ 233] ، وَفِصالُهُ فِي عامَيْنِ [ لقمان/ 14] ، ومنه : الفَصِيلُ ، لکن اختصّ بالحُوَارِ ، والمُفَصَّلُ من القرآن، السّبع الأخيروذلک للفصل بين القصص بالسّور القصار، والفَوَاصِلُ : أواخر الآي، وفَوَاصِلُ القلادة : شذر يفصل به بينها، وقیل : الفَصِيلُ : حائط دون سور المدینة وفي الحدیث : «من أنفق نفقة فَاصِلَةً فله من الأجر کذا» أي : نفقة تَفْصِلُ بين الکفر والإيمان . الفصال کے معنی بچے کا دودھ چھڑانا کے ہیں قرآن پاک میں ہے : فَإِنْ أَرادا فِصالًا عَنْ تَراضٍ مِنْهُما [ البقرة/ 233] اور اگر دونوں ( یعنی ماں باپ ) آپس کی رضامندی ۔۔۔ سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہیں ۔ وَفِصالُهُ فِي عامَيْنِ [ لقمان/ 14] اور ( آخر کار) دوبرس میں اس کا دودھ چھڑا نا ہوتا ہے ۔ اسی سے تفصیل ( یعنی دودھ چھڑایا ہوا بچہ ) ہے لیکن یہ خاص کر اونٹ کے بچہ پر بولا جاتا ہے المفصل قرآن کی آخر منزل کو کہاجاتا ہے ۔ اس لئے کہ اس میں چھوٹی چھوٹی سورتوں میں تمام قصے الگ الگ بیان کئے گئے ہیں ۔ الفواصل ( اوخر آیات : اور فواصل القلادۃ ان بڑے موتیوں کو کہاجاتا ہے جو ہار کے اندر چھوٹی موتیوں کے درمیان فاصلہ کے لئے ڈال دیئے جاتے ہیں ۔ حدیث میں ہے : من اتفق نفقۃ فاصلۃ فلہ سن الاجر کذا یعنی جس نے اتنا زیادہ خرچ کیا جس سے حق و باطل کے درمیان فاصلہ ہوجائے تو اس کے لئے اتنا اور اتنا اجر ہے ۔ مَشُورَةُ : والتَّشَاوُرُ والْمُشَاوَرَةُ والْمَشُورَةُ : استخراج الرّأي بمراجعة البعض إلى البعض، من قولهم : شِرْتُ العسل : إذا اتّخذته من موضعه، واستخرجته منه . قال اللہ تعالی: وَشاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ [ آل عمران/ 159] ، والشُّورَى: الأمر الذي يُتَشَاوَرُ فيه . قال : وَأَمْرُهُمْ شُوری بَيْنَهُمْ [ الشوری/ 38] . اور التشاور والمشاورہ والمشورۃ کے معنی ہیں ایک دوسرے کی طرف بات لوٹا کر رائے معلوم کرنا ۔ یہ بھی شرت العسل سے مشتق ہے جس کے معنی چھتہ سے شہد نکالنا کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَشاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ [ آل عمران/ 159] اور اپنے کا موں میں ان سے مشورہ لیا کرو۔ الشوری ہر وہ امر جس میں مشورہ کیا جائے قرآن میں ہے : ۔ وَأَمْرُهُمْ شُوری بَيْنَهُمْ [ الشوری/ 38] اور اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں ۔ جناح وسمي الإثم المائل بالإنسان عن الحق جناحا ثم سمّي كلّ إثم جُنَاحاً ، نحو قوله تعالی: لا جُناحَ عَلَيْكُمْ في غير موضع، وجوانح الصدر : الأضلاع المتصلة رؤوسها في وسط الزور، الواحدة : جَانِحَة، وذلک لما فيها من المیل اسی لئے ہر وہ گناہ جو انسان کو حق سے مائل کردے اسے جناح کہا جاتا ہے ۔ پھر عام گناہ کے معنی میں یہ لفظ استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں متعدد مواضع پر آیا ہے پسلیاں جن کے سرے سینے کے وسط میں باہم متصل ہوتے ہیں اس کا واحد جانحۃ ہے اور ان پسلیوں کو جو انح اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ان میں میلان یعنی خم ہوتا ہے ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے
Top