Mufradat-ul-Quran - Al-Baqara : 238
حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى١ۗ وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ
حٰفِظُوْا : تم حفاظت کرو عَلَي الصَّلَوٰتِ : نمازوں کی وَ : اور الصَّلٰوةِ : نماز الْوُسْطٰى : درمیانی وَ : اور قُوْمُوْا : کھڑے رہو لِلّٰهِ : اللہ کے لیے قٰنِتِيْنَ : فرمانبردار (جمع)
(مسلمانو ! ) سب نمازیں خصوصاً بیچ کی نماز (یعنی نماز عصر) پورے التزام کے ساتھ ادا کرتے رہو اور خدا کے آگے ادب سے کھڑے رہا کرو
حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى ۤ وَقُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِيْنَ 238؁ حفظ الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] ( حظ ) الحفظ کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔ صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ وسط وَسَطُ الشیءِ : ما له طرفان متساویا القدر، ويقال ذلک في الكمّيّة المتّصلة کالجسم الواحد إذا قلت : وَسَطُهُ صلبٌ ، وضربت وَسَطَ رأسِهِ بفتح السین . ووَسْطٌ بالسّكون . يقال في الكمّيّة المنفصلة كشيء يفصل بين جسمین . نحو : وَسْطِ القومِ كذا . والوَسَطُ تارة يقال فيما له طرفان مذمومان . يقال : هذا أَوْسَطُهُمْ حسبا : إذا کان في وَاسِطَةِ قومه، وأرفعهم محلّا، وکالجود الذي هو بين البخل والسّرف، فيستعمل استعمال القصد المصون عن الإفراط والتّفریط، فيمدح به نحو السّواء والعدل والنّصفة، نحو : وَكَذلِكَ جَعَلْناكُمْ أُمَّةً وَسَطاً [ البقرة/ 143] وعلی ذلک قوله تعالی: قالَ أَوْسَطُهُمْ [ القلم/ 48] وتارة يقال فيما له طرف محمود، وطرف مذموم کالخیر والشّرّ ، ويكنّى به عن الرّذل . نحو قولهم : فلان وَسَطُ من الرجال تنبيها أنه قد خرج من حدّ الخیر . وقوله : حافِظُوا عَلَى الصَّلَواتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطى[ البقرة/ 238] ، فمن قال : الظّهر فاعتبارا بالنهار، ومن قال : المغرب «فلکونها بين الرّکعتین وبین الأربع اللّتين بني عليهما عدد الرّکعات، ومن قال : الصّبح فلکونها بين صلاة اللّيل والنهار . قال : ولذلک توعّد النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم فقال : «من فاته صلاة العصر فكأنّما وتر أهله وماله» ( و س ط ) وسط الشئی ہر چیز کی در میانی جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے اس کے دونوں اطراف کا فاصلہ مساوی ہو اور اس کا استعمال کمیتہ متصلہ یعنی ایک جسم پر ہوتا ہے جیسے وسطہ صلب اس کا در میان سخت ہے ) ضر بت ہ وسط راسہ لیکن وسط ( بالسکون ) کمیت منفصلہ پر بولا جاتا ہے یعنی دو چیزوں کے در میان فاصل کو وسط کہا جاتا ہے جیسے ۔ وسط القوم کذا کہ وہ لوگوں کے در میان فاصل ہے ۔ نیز الوسط ( بفتح السی) اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو دو مذموم اطراف کے در میان واقع ہو یعنی معتدل کو افراط وتفریط کے بالکل در میان ہوتا ہے مثلا جوہ کہ ببخل اور اسراف کے در میانی در جہ کا نام ہے اور معنی اعتدال کی مناسبت سے یہ عدل نصفۃ سواء کی طرح ہر عمدہ اور بہترین چیز کے لئے بولا جاتا ہے مثلا جو شخص اپنی قوم میں لحاظ حسب سب سے بہتر اور اونچے درجہ کا ہو اس کے متعلق ھذا وسطھم حسبا کہا جاتا ہے چناچہ اسی معنی ہیں ( امت مسلمہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَكَذلِكَ جَعَلْناكُمْ أُمَّةً وَسَطاً [ البقرة/ 143] اور اس طرح ہم نے تم کو امت معتدل بنایا ۔ اسی طرح آیت : ۔ قالَ أَوْسَطُهُمْ [ القلم/ 48] ایک جوان جوان میں فر زانہ نہ تھا بولا ۔ میں بھی اوسط کا لفظ اسی معنی پر محمول ہے اور کبھی وسط اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو نہ زیادہ اچھی ہو اور نہ بریوی بلکہ در میانے در جہ کی ہو ۔ اور کبھی کنایۃ رذیل چیز پر بھی بولا جاتا ہے جیسے کہا جاتا ہے ۔ فلان وسط من لرجال کہ فلاں کم در جے کا آدمی ہے یعنی در جہ خیر سے گرا ہوا ہے اور آیت کریمہ : ۔ حافِظُوا عَلَى الصَّلَواتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطى[ البقرة/ 238] مسلمانوں سب نمازیں خصوصا بیچ کی نماز یعنی عصر ایورے التزام کے ساتھ ادا کرتے رہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ وسطی سے مراد صلوۃ ظہر ہے کیونکہ وہ دن کے در میانی حصہ میں ادا کی جاتی ہے اور بعض اس سے صلوۃ مغرب مراد لیتے ہیں کیونکہ وہ تعداد رکعات کے لحاظ سے ثنائی اور رباعی نمازوں کے در میان میں ہے اور بعض نے صلوۃ فجر مراد لی ہے کیونکہ وہ دن اور رات کی نمازوں کے در میان میں ہے جیسا کہ دوسری آیت فرمایا : ۔ أَقِمِ الصَّلاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلى غَسَقِ اللَّيْلِ الآية [ الإسراء/ 78]( اے محمد ﷺ ) سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک ( ظہر عصر مغرب عشا کی ) نمازیں اور صبح کو قرآن پڑھا کرو ۔ اور صلوہ وسطیٰ کو خاص کر الگ ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ صبح کا وقت سستی اور غفلت کا وقت ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس وقت اٹھنے کے لئے نیند کی لذت کو چھوڑ نا پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ صبح کی اذان میں کا اضافہ کیا گیا ہے اور جو لوگ اس سے صلوۃ عصر مراد لیتے ہیں جیسا کہ آنحضرت سے ایک حدیث میں بھی مروی ہے تو وہ اس کے علیحدہ ذکر کرنے کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ عصر عوام کے کاروبار کا وقت ہوات ہے اس لئے اس نماز میں سستی ہوجاتی ہے بخلاف دوسری نمازوں کسے کہ ان کے اول یا آخر میں فر صت کا وقت مل جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے زجرا فرمایا کہ جس نے عصر کی نماز ضائع کردی گویا اس نے اپنے اہل و عیال اور مال کو بر باد کردیا ۔ قنت القُنُوتُ : لزوم الطّاعة مع الخضوع، وفسّر بكلّ واحد منهما في قوله تعالی: وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ [ البقرة/ 238] ، وقوله تعالی: كُلٌّ لَهُ قانِتُونَ [ الروم/ 26] قيل : خاضعون، وقیل : طائعون، وقیل : ساکتون ولم يعن به كلّ السّكوت، وإنما عني به ما قال عليه الصلاة والسلام : «إنّ هذه الصّلاة لا يصحّ فيها شيء من کلام الآدميّين، إنّما هي قرآن وتسبیح» «1» ، وعلی هذا قيل : أيّ الصلاة أفضل ؟ فقال : «طول القُنُوتِ» «2» أي : الاشتغال بالعبادة ورفض کلّ ما سواه ( ق ن ت ) القنوت ( ن ) کے معنی خضوع کے ساتھ اطاعت کا التزام کرنے کے ہیں اس بناء پر آیت کریمہ : وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ [ البقرة/ 238] اور خدا کے آگے ادب کھڑے رہا کرو ۔ میں برض نے قانیتین کے معنی طائعین کئے ہیں یعنی اطاعت کی ھالت میں اور بعض نے خاضعین یعنی خشوع و خضوع کے ساتھ اسی طرح آیت کریمہ كُلٌّ لَهُ قانِتُونَ [ الروم/ 26] سب اس کے فرمانبردار ہیں ۔ میں بعض نے قنتون کے معنی خاضعون کئے ہیں اور بعض نے طائعون ( فرمانبرادار اور بعض نے ساکتون یعنی خاموش اور چپ چاپ اور اس سے بالکل خاموش ہوکر کھڑے رہنا مراد نہیں ہے بلکہ عبادت گذاری میں خاموشی سے ان کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ( 87 ) کہ نماز ( تلاوت قرآن اور اللہ کی تسبیح وتحمید کا نام ہے اور اس میں کسی طرح کی انسانی گفتگو جائز نہیں ہے ۔ اسی بناء پر جب آپ سے پوچھا گیا کہ کونسی نماز افضل تو آپ ﷺ نے فرمایا ( 88 ) طول القنوت یعنی عبادت میں ہمہ تن مصروف ہوجانا اور اس کے ماسوا ست توجہ پھیرلینا قرآن میں ہے ۔
Top