Mufradat-ul-Quran - Al-Baqara : 88
وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ١ؕ بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِیْلًا مَّا یُؤْمِنُوْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا قُلُوْبُنَا : ہمارے دل غُلْفٌ : پردہ میں بَلْ : بلکہ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ : اللہ کی لعنت بِكُفْرِهِمْ : ان کے کفر کے سبب فَقَلِیْلًا : سو تھوڑے ہیں مَا يُؤْمِنُوْنَ : جو ایمان لاتے ہیں
اور کہتے ہیں ہمارے دل پردے میں ہیں (نہیں) بلکہ خدا نے ان کے کفر کے سبب ان پر لعنت کر رکھی ہے پس یہ تھوڑے ہی پر ایمان لاتے ہیں
وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ۝ 0 ۭ بَلْ لَّعَنَہُمُ اللہُ بِكُفْرِھِمْ فَقَلِيْلًا مَّا يُؤْمِنُوْنَ۝ 88 قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ غلف قوله تعالی: قُلُوبُنا غُلْفٌ [ البقرة/ 88] ، قيل : هو جمع أَغْلَفَ ، کقولهم : سيف أَغْلَفُ. أي : هو في غِلَافٍ ، ويكون ذلک کقوله : وَقالُوا قُلُوبُنا فِي أَكِنَّةٍ [ فصلت/ 5] ، فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا [ ق/ 22] . وقیل : معناه قلوبنا أوعية للعلم «2» . وقیل : معناه قلوبنا مغطّاة، و غلام أَغْلَفُ كناية عن الأقلف، والغُلْفَةُ کالقلفة، وغَلَّفْتُ السّيفَ ، والقارورة، والرّحل، والسّرج : جعلت لها غِلَافاً ، وغَلَّفْتُ لحیته بالحنّاء، وتَغَلَّفَ نحو تخضّب، وقیل : قُلُوبُنا غُلْفٌ [ البقرة/ 88] ، هي جمع غِلَافٍ ، والأصل : غُلُفٌ بضمّ اللام، وقد قرئ به «3» ، نحو : كتب، أي : هي أوعية للعلم تنبيها أنّا لا نحتاج أن نتعلّم منك، فلنا غنية بما عندنا . ( غ ل) آیت کریمہ : قُلُوبُنا غُلْفٌ [ البقرة/ 88] میں بعض نے کہا ہے کہ یہ یعنی ( غلف ) اغلف ) کی جمع ہے اور اغلف اس چیز کو کہتے ہیں جو غلاف میں بند ہو چناچہ سیف اغلف کے معنی ہیں تلوار جو غلاف یعنی نیام میں بند ہو اور غیر محنتوں لڑکے کو غلام اغلب کہا جاتا ہے اور جو چمڑہ ختم کرتے وقت کاٹ دیا جاتا ہے لمبے غللۃ کہتے ہیں ۔ غلفت السیف تلوار کو نیام میں بند کردیا غلقت القارورۃ شیشے کے اوپر غلاف چڑھا دیا غلقت الرحل اولسرج پالان یا زین پر چمڑا مڑھ دیا اسی طرح غلقت الحیۃ بالحناء کے معنی کسی کی داڑھی کو مہندی سے چھپا دینے کے ہیں اور تغلف ( تفعر ) بمعنی تخصب آتا ہے پس آیت کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے دل غلافوں میں بند ہیں ( اس لئے قرآن کریم کی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آسکتیں لہذا یہ آیت کریمہ : ۔ قُلُوبُنا فِي أَكِنَّةٍ [ فصلت/ 5] اور فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا [ ق/ 22] کے ہم معنی ہوگی بعض نے کہا ہے کہ یہ ( غلف ) اصل میں غلف بضم اللام ہے جیسا کہ ایک قرات میں سے اور یہ اغلف کی نہیں بلکہ غلاف کی جمع ہے جیسا کہ کتاب کی جمع کتب آتی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے دل خود علوم ومعارف کے گنجینے اور مخزن ہیں اور ان علوم کی موجود گی میں ہم دوسروں کے علوم سے بےنیاز ہیں لہذا تم سے کیس قسم کے استفادہ کی ہمیں ضرورت نہیں ہے ۔ بل بَلْ كلمة للتدارک، وهو ضربان : - ضرب يناقض ما بعده ما قبله، لکن ربما يقصد به لتصحیح الحکم الذي بعده وإبطال ما قبله، وربما يقصد تصحیح الذي قبله وإبطال الثاني، فممّا قصد به تصحیح الثاني وإبطال الأول قوله تعالی: إِذا تُتْلى عَلَيْهِ آياتُنا قالَ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ كَلَّا بَلْ رانَ عَلى قُلُوبِهِمْ ما کانوا يَكْسِبُونَ [ المطففین/ 13- 14] ، أي : ليس الأمر کما قالوا بل جهلوا، فنبّه بقوله : رانَ عَلى قُلُوبِهِمْ علی جهلهم، وعلی هذا قوله في قصة إبراهيم قالُوا أَأَنْتَ فَعَلْتَ هذا بِآلِهَتِنا يا إِبْراهِيمُ قالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هذا فَسْئَلُوهُمْ إِنْ كانُوا يَنْطِقُونَ [ الأنبیاء/ 62- 63] وممّا قصد به تصحیح الأول وإبطال الثاني قوله تعالی: فَأَمَّا الْإِنْسانُ إِذا مَا ابْتَلاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ وَأَمَّا إِذا مَا ابْتَلاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهانَنِ كَلَّا بَلْ لا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ [ الفجر/ 15- 17] . أي : ليس إعطاؤهم المال من الإکرام ولا منعهم من الإهانة، لکن جهلوا ذلک لوضعهم المال في غير موضعه، وعلی ذلک قوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقاقٍ [ ص/ 1- 2] ، فإنّه دلّ بقوله : وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ أنّ القرآن مقرّ للتذکر، وأن ليس امتناع الکفار من الإصغاء إليه أن ليس موضعا للذکر، بل لتعزّزهم ومشاقّتهم، وعلی هذا : ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ بَلْ عَجِبُوا [ ق/ 1- 2] ، أي : ليس امتناعهم من الإيمان بالقرآن أن لا مجد للقرآن، ولکن لجهلهم، ونبّه بقوله : بَلْ عَجِبُوا علی جهلهم، لأنّ التعجب من الشیء يقتضي الجهل بسببه، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ كَلَّا بَلْ تُكَذِّبُونَ بِالدِّينِ [ الانفطار/ 6- 9] ، كأنه قيل : ليس هاهنا ما يقتضي أن يغرّهم به تعالی، ولکن تكذيبهم هو الذي حملهم علی ما ارتکبوه . - والضرب الثاني من «بل» : هو أن يكون مبيّنا للحکم الأول وزائدا عليه بما بعد «بل» ، نحو قوله تعالی: بَلْ قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ بَلِ افْتَراهُ بَلْ هُوَ شاعِرٌ [ الأنبیاء/ 5] ، فإنّه نبّه أنهم يقولون : أَضْغاثُ أَحْلامٍ بَلِ افْتَراهُ ، يزيدون علی ذلك أنّ الذي أتى به مفتری افتراه، بل يزيدون فيدّعون أنه كذّاب، فإنّ الشاعر في القرآن عبارة عن الکاذب بالطبع، وعلی هذا قوله تعالی: لَوْ يَعْلَمُ الَّذِينَ كَفَرُوا حِينَ لا يَكُفُّونَ عَنْ وُجُوهِهِمُ النَّارَ وَلا عَنْ ظُهُورِهِمْ وَلا هُمْ يُنْصَرُونَ بَلْ تَأْتِيهِمْ بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ [ الأنبیاء/ 39- 40] ، أي : لو يعلمون ما هو زائد عن الأول وأعظم منه، وهو أن تأتيهم بغتة، و جمیع ما في القرآن من لفظ «بل» لا يخرج من أحد هذين الوجهين وإن دقّ الکلام في بعضه . بل ( حرف ) بل حرف استدراک ہے اور تدارک کی دو صورتیں ہیں ( 1) جبکہ بل کا مابعد اس کے ماقبل کی نقیض ہو تو اس صورت میں کبھی تو اس کے مابعد حکم کی تصیح سے ماقبل کی تردید مقصود ہوتی ہے ' اور کبھی اس کے برعکس ماقبل کی تصیحح اور بابعدار کے ابطال کی غرض سے بل کو لایا جاتا ہے ۔ چناچہ پہلی صورت کے متعلق فرمایا ۔ إِذا تُتْلى عَلَيْهِ آياتُنا قالَ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ كَلَّا بَلْ رانَ عَلى قُلُوبِهِمْ ما کانوا يَكْسِبُونَ [ المطففین/ 13- 14] جب اس کو بیماری آیتیں سنائی جاتی ہیں تو کہنا ہے یہ تو اگلے لوگوں کے افسانے ہیں دیکھو یہ جود اعمال بد کر رہے ہیں ان کا ان کے دلوں پر زنگ بیٹھ گیا ہے ۔ تو بل کا معنی یہ ہیں کہ آیات الہی کو اساطیر کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ یہ ان کے جہالت ہے پھر ران علی قلوبھم کہہ کر ان کی جہالت پر تنبیہ کی ہے ۔ اسی طرح حضرت ابراھیم (علیہ السلام) کے قصہ میں فرمایا : ۔ قالُوا أَأَنْتَ فَعَلْتَ هذا بِآلِهَتِنا يا إِبْراهِيمُ قالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هذا فَسْئَلُوهُمْ إِنْ كانُوا يَنْطِقُونَ [ الأنبیاء/ 62- 63] جب ابراہیم آئے تو ) توبت پرستوں نے کہا کہ ابرہیم بھلا یہ کام ہمارے معبودوں کے ساتھ تم نے کیا ہے ( ابراہیم نے کہا ) نہیں بلکہ یہ ان کے اس بڑے ربت نے کیا ہوگا اگر یہ بولتے ہوں تو ان سے پوچھ دیکھو ،۔ اور دوسری صورت میں ماقبل کی تصیحح اور مابعد کے ابطال کے متعلق فرمایا : ۔ فَأَمَّا الْإِنْسانُ إِذا مَا ابْتَلاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ وَأَمَّا إِذا مَا ابْتَلاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهانَنِ كَلَّا بَلْ لا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ [ الفجر/ 15- 17] . مگر انسان ( عجیب مخلوق ہے کہ ) جب اس کا پروردگار اس کو آزماتا ہے کہ اسے عزت دیتا اور نعمت بخشا ہے تو کہتا ہے کہ ( آہا ) میرے پروردگار نے مجھے عزت بخشی اور جب دوسری طرح آزماتا ہے کہ روزی تنگ کردیتا ہے تو کہتا ہے کہ ( ہائے ) میرے پروردگار نے مجھے ذلیل کیا نہیں بلکہ تم لوگ یتیم کی خاطر نہیں کرتے ۔ یعنی رزق کی فراخی یا تنگی اکرام یا اہانت کی دلیل نہیں ہے ( بلکہ یہ پروردگار کی طرف سے آزمائش ہے مگر لوگ اس حقیقت سے بیخبر ہیں کیونکہ یہ مال کو بیجا صرف کررہے ہیں اور اسی طرح آیت : ۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقاقٍ [ ص/ 1- 2] قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے کہ تم حق پر ہو ( مگر جو لوگ کافر ہیں وہ غرور اور مخالفت میں ہیں میں کہہ کر یہ ثابت کیا ہے کہ قرآن تذکرہ یعنی نصیحت حاصل کرنے کی کتاب ہے اور کفار کا اس کی طرف متوجہ نہ ہونا اس کی نفی نہیں کرتا بلکہ ان کا اعراض محض غرور اور مخالفت کی وجہ سے ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ أنّ القرآن مقرّ للتذکر، وأن ليس امتناع الکفار من الإصغاء إليه أن ليس موضعا للذکر، بل لتعزّزهم ومشاقّتهم، وعلی هذا : ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ بَلْ عَجِبُوا [ ق/ 1- 2] قرآن مجید کی قسم ( کہ محمد ﷺ پیغمبر ہیں ۔ لیکن ان لوگوں نے تعجب کیا ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہے یعنی ان کا قرآن پر ایمان نہ لانا قرآن کے بزرگ ہونے کے منافی نہیں ہے بلکہ محض ان کی جہالت ہے بل عجبوا کہہ کر ان کی جہالت پر متنبہ کیا ہے کیونکہ کسی چیز پر اسی وقت تعجب ہوتا ہے جب اس کا سبب معلوم نہ ہو ۔ نیز فرمایا : ۔ ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ كَلَّا بَلْ تُكَذِّبُونَ بِالدِّينِ [ الانفطار/ 6- 9] تجھ کو اپنے پروردگار کرم گستر کے باب میں کس چیز نے دہو کہ دیا ( وہی تو ہے ) جس نے تجھے بنایا اور ( تیرے اعضاء کو ) ٹھیک کیا ۔ اور ( تیرے قامت کو ) معتدل رکھا اور جس صورت میں چاہا جوڑ دیا ۔ مگر ہیبات تم لوگ جزا کو جھٹلاتے ہو ۔ یعنی رب کریم کے بارے میں کوئی چیز سوائے اس کے دھوکے میں ڈالنے والی نہیں ہے کہ وہ دین کو جھٹلا رہے ہیں ۔ (2 ) تدارک کی دوسری صورت یہ ہے کہ دوسری کلام کے ذریعہ پہلی کلام کے ذریعہ پہلی کلام کی وضاحت اور اس پر اضافہ مقصود ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ بَلْ قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ بَلِ افْتَراهُ بَلْ هُوَ شاعِرٌ [ الأنبیاء/ 5] بلکہ ( ظالم ) کہنے لگے کہ ( در قرآن ) پریشان ) باتیں ہیں جو ) خواب ) میں دیکھ لی ) ہیں ( نہیں بلکہ اس نے اس کو اپنی طرف سے بنالیا ہے ( نہیں ) بلکہ یہ ( شعر ہے ) جو اس شاعر کا نتیجہ طبع ) ہے ۔ یہاں متنبہ کیا ہے کہ والاد انہوں نے قرآن کو خیالات پریشان کیا پھر اس پر اضافہ کرکے اسے افترا بتلانے لگے پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آپ کے متعلق ( نعوذ باللہ ) کذاب ہونے کا واعا کرنے لگے کیونکہ قران کی اصطلاح میں شاعر فطرۃ کاذب کو کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ لَوْ يَعْلَمُ الَّذِينَ كَفَرُوا حِينَ لا يَكُفُّونَ عَنْ وُجُوهِهِمُ النَّارَ وَلا عَنْ ظُهُورِهِمْ وَلا هُمْ يُنْصَرُونَ بَلْ تَأْتِيهِمْ بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ [ الأنبیاء/ 39- 40] اے کا ش کافر اس وقت کو جانیں جب وہ اپنے مونہوں پر سے ( دوزخ کی ) آگ کو روک نہ سکیں گے اور نہ اپنی پیٹھوں پر سے اور نہ ان کا کوئی مدد گار ہوگا بلکہ قیامت ان پر ناگہاں آواقع ہوگی اور ان کے ہوش کھودے گی ۔ بھی اس معنی پر محمول ہے کہ کاش وہ اس کے علاوہ دوسری بات کو جانتے ہوتے جو پہلی بات سے زیادہ اہم ہے یعنی یہ کہ قیامت ان پر ناگہاں آواقع ہوگی ۔ قرآن میں جتنی جگہ بھی بل آیا ہے ان دونوں معنی میں سے کسی ایک پر دلالت کرتا ہے اگرچہ بعض مقامات ذرا وضاحت طلب ہیں اور ان کے پیچیدہ ہونے کی بنا پر بعض علمائے نحو نے غلطی سے کہدیا ہے کہ قرآن میں بل صرف معنی ثانی کیلئے استعمال ہوا ہے لعن اللَّعْنُ : الطّرد والإبعاد علی سبیل السّخط، وذلک من اللہ تعالیٰ في الآخرة عقوبة، وفي الدّنيا انقطاع من قبول رحمته وتوفیقه، ومن الإنسان دعاء علی غيره . قال تعالی: أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود/ 18] ( ل ع ن ) اللعن ۔ کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کردینا اور دھتکار دینا ۔ خدا کی طرف سے کسی شخص پر لعنت سے مراد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں تو اللہ کی رحمت اور توفیق سے اثر پذیر ہونے محروم ہوجائے اور آخرت عقوبت کا مستحق قرار پائے اور انسان کی طرف سے کسی پر لعنت بھیجنے کے معنی بد دعا کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود/ 18] سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( کر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ قل القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] ( ق ل ل ) القلۃ والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی ﷺ کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی ﷺ میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔
Top