Mufradat-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 18
بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌ١ؕ وَ لَكُمُ الْوَیْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ
بَلْ : بلکہ نَقْذِفُ : ہم پھینک مارتے ہیں بِالْحَقِّ : حق کو عَلَي : پر الْبَاطِلِ : باطل فَيَدْمَغُهٗ : پس وہ اس کا بھیجا نکال دیتا ہے فَاِذَا : تو اس وقت هُوَ : وہ زَاهِقٌ : نابود ہوجاتا ہے وَلَكُمُ : اور تمہارے لیے الْوَيْلُ : خرابی مِمَّا : اس سے جو تَصِفُوْنَ : تم بناتے ہو
(نہیں) بلکہ ہم سچ کو جھوٹ پر کھینچ مارتے ہیں تو وہ اسکا سر توڑ دیتا ہے اور جھوٹ اسی وقت نابود ہوجاتا ہے اور جو باتیں تم بناتے ہو ان سے تمہاری خرابی ہے
بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَي الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُہٗ فَاِذَا ہُوَزَاہِقٌ۝ 0ۭ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ۝ 18 قذف الْقَذْفُ : الرّمي البعید، ولاعتبار البعد فيه قيل : منزل قَذَفٌ وقَذِيفٌ ، وبلدة قَذُوفٌ: بعیدة، وقوله : فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِ [ طه/ 39] ، أي : اطرحيه فيه، وقال : وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب/ 26] ، بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْباطِلِ [ الأنبیاء/ 18] ، يَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَّامُ الْغُيُوبِ [ سبأ/ 48] ، وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات/ 8- 9] ، واستعیر القَذْفُ للشّتم والعیب کما استعیر الرّمي . ( ق ذ) القذف ( ض ) کے معنی دور پھیکنا کے ہیں پھر معنی بعد کے اعتبار سے دور دراز منزل کو منزل قذف وقذیف کہاجاتا ہے اسی طرح دور در ازشہر کو بلدۃ قذیفۃ بول لیتے ہیں ۔۔۔ اور آیت کریمہ : فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِ [ طه/ 39] پھر اس ( صندوق ) کو دریا میں ڈال دو ۔ کے معنی دریا میں پھینک دینے کے ہیں ۔ نیز فرمایا : وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب/ 26] اور ان کے دلوں میں دہشت ڈال دی ۔ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْباطِلِ [ الأنبیاء/ 18] بلک ہم سچ کو جھوٹ پر کھینچ مارتے ہیں ۔ يَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَّامُ الْغُيُوبِ [ سبأ/ 48] وہ اپنے اوپر حق اتارتا ہے اور وہ غیب کی باتوں کا جاننے والا ہے ۔ وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات/ 8- 9] اور ہر طرف سے ( ان پر انگارے ) پھینکے جاتے ہیں ( یعنی ) وہاں سے نکال دینے کو ۔ اور رمی کی طرح قذف کا لفظ بھی بطور استعارہ بطل البَاطِل : نقیض الحق، وهو ما لا ثبات له عند الفحص عنه، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] ( ب ط ل ) الباطل یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔ دمغ قال تعالی: بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْباطِلِ فَيَدْمَغُهُ [ الأنبیاء/ 18] ، أي : يكسر دِمَاغَهُ ، وحجّة دَامِغَة كذلك . ويقال للطّلعة تخرج من أصل النّخلة فتفسده إذا لم تقطع : دامغة، وللحدیدة التي تشدّ علی آخر الرّحل : دامغة، وكلّ ذلک استعارة من الدَّمْغ الذي هو کسر الدّماغ . ( د م غ ) الدمغ ( ف) کے اصل معنی دماغ پھوڑ دینے کے ہیں ( اس سے نیست ونابود کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ) قرآن میں ہے ؛۔ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْباطِلِ فَيَدْمَغُهُ [ الأنبیاء/ 18] ( نہیں ) بلکہ ہم سچ کو جھوٹ پر کھینچ مارتے ہیں تو وہ اس کا مغز توڑ دیتا ہے ۔ حجۃ دامعۃ ۔ حجت قاطع ۔ سر پھوڑ دلیل ۔ نیز دامغۃ ای ک قسم کے شگوفہ کو کہتے ہیں جو کھجور تنا سے پھوٹ نکلتا ہے ۔ اگر اسے کاٹا نہ جائے تو کھجور کے درخت کو خشک اور خراب کردیتا ہے نیز دامعۃ اس لوہے کو بھی کہتے جو پالان کی لکڑی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے ۔ یہ تمام الفاظ مغ ہے بطور استعارہ ہوتے ہیں ۔ جس کے معنی دماغ کو توڑنا کے ہیں ۔ زهق زَهَقَتْ نفسه : خرجت من الأسف علی الشیء، قال : وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ [ التوبة/ 55] . ( ز ھ ق ) زھقت نفسہ کے معنی ہیں کسی چیز پر رنج وغم سے اس کی جان نکل گئی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ [ التوبة/ 55] اور ان کی جانیں ( اس حال میں ) نکلیں ۔ وصف الوَصْفُ : ذكرُ الشیءِ بحلیته ونعته، والصِّفَةُ : الحالة التي عليها الشیء من حلیته ونعته، کالزِّنَةِ التي هي قدر الشیء، والوَصْفُ قد يكون حقّا وباطلا . قال تعالی: وَلا تَقُولُوا لِما تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ [ النحل/ 116] ( و ص) الوصف کے معنی کسی چیز کا حلیہ اور نعت بیان کرنے کسے ہیں اور کسی چیز کی وہ حالت جو حلیہ اور نعمت کے لحاظ سے ہوتی ہے اسے صفۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ زنۃ ہر چیز کی مقدار پر بولا جاتا ہے ۔ اور وصف چونکہ غلط اور صحیح دونوں طرح ہوسکتا ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقُولُوا لِما تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ [ النحل/ 116] اور یونہی جھوٹ جو تمہاری زبان پر آئے مت کہہ دیا کرو ۔
Top