Mufradat-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 31
وَ جَعَلْنَا فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِهِمْ١۪ وَ جَعَلْنَا فِیْهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّهُمْ یَهْتَدُوْنَ
وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنائے فِي الْاَرْضِ : زمین میں رَوَاسِيَ : پہاڑ اَنْ تَمِيْدَ بِهِمْ : کہ جھک نہ پڑے ان کے ساتھ وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنائے فِيْهَا : اس میں فِجَاجًا : کشادہ سُبُلًا : راستے لَّعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَهْتَدُوْنَ : وہ راہ پائیں
اور ہم نے زمین میں پہاڑ بنائے تاکہ لوگوں (کے بوجھ) سے ہلنے (اور جھکنے) نہ لگے اور اس میں کشادہ راستے بنائے تاکہ لوگ ان پر چلیں
وَجَعَلْنَا فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِہِمْ 0۠ وَجَعَلْنَا فِيْہَا فِجَـاجًا سُـبُلًا لَّعَلَّہُمْ يَہْتَدُوْنَ۝ 31 رسا يقال : رَسَا الشیء يَرْسُو : ثبت، وأَرْسَاهُ غيره، قال تعالی: وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ/ 13] ، وقال : رَواسِيَ شامِخاتٍ [ المرسلات/ 27] ، أي : جبالا ثابتات، وَالْجِبالَ أَرْساها[ النازعات/ 32] ، ( ر س و ) رسا الشئی ۔ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے کسی جگہ پر ٹھہرنے اور استوار ہونے کے ہیں اور ارسٰی کے معنی ٹھہرانے اور استوار کردینے کے ۔ قرآن میں ہے : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ/ 13] اور بڑی بھاری بھاری دیگیں جو ایک پر جمی رہیں ۔ رَواسِيَ شامِخاتٍ [ المرسلات/ 27] اور انچے انچے پہاڑ یہاں پہاڑوں کو بوجہ ان کے ثبات اور استواری کے رواسی کہا گیا ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : وَالْجِبالَ أَرْساها[ النازعات/ 32] اور پہاڑوں کو ( اس میں گاڑ کر ) پلادیا ۔ ميد المَيْدُ : اضطرابُ الشیء العظیم کا ضطراب الأرض . قال تعالی: أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ [ النحل/ 15] ، أَنْ تَمِيدَ بِهِمْ [ الأنبیاء/ 31] . ومَادَتِ الأغصان تمید، وقیل المَيَدانُ في قول الشاعر : 432- نعیما ومَيَدَاناً من العیش أخضرا وقیل : هو الممتدُّ من العیش، وميَدان الدَّابة منه، والمائدَةُ : الطَّبَق الذي عليه الطّعام، ويقال لكلّ واحدة منها [ مائدة ] «2» ، ويقال : مَادَنِي يَمِيدُنِي، أي : أَطْعَمِني، وقیل : يُعَشِّينى، وقوله تعالی: أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] قيل : استدعوا طعاما، وقیل : استدعوا علما، وسمّاه مائدة من حيث إنّ العلم غذاء القلوب کما أنّ الطّعام غذاء الأبدان . ( م ی د ) المید ۔ زمین کی طرح کی کسی بڑی چیز کا مضطرب ہونا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ [ النحل/ 15] کہ تم کو نے کر کہیں جھک نہ جائے ۔ أَنْ تَمِيدَ بِهِمْ [ الأنبیاء/ 31] تاکہ لوگوں ( کے بوجھ سے ہلنے اور جھکنے نہ لگے ۔ مادت اکا غصان تمید شاخوں کا مضطرب ہونا بعض نے کہا ہے کہ شاعر کے کلام ( 417 ) فعیما ومیدا انا من العیش اخضرا نعمتیں اور سر سبز لہلہاتی ہوئی زندگی میں بھی میدا نا مادت الا غصبان سے ہے اور اس کے معنی کشادہ زندگی کے ہیں اور اسی سے میدان الدابۃ ہے جس کے منعی جانور کے کھلے میدان میں پھرنے کے ہیں ۔ المائدۃ اصل میں اس خوان کو کہتے ہیں جس پر کھانا چنا ہوا ہو ۔ اور ہر ایک پر یعنی کھانے اور خالی خوان پر انفراد بھی مائدۃ کا لفظ بولا جاتا ہے یہ مادنی یمیدنی سے ہے جس کے معنی رات کا کھانا کھلانا بھی کئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ہم پر آسمان سے خواں نازل فرما ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ انہوں نے کھانا طلب کیا تھا ۔ اور بعض نے کہا ہے علم کے لئے دعا کی تھی اور علم کو مائدۃ سے اس ؛لئے تعبیر فرمایا ہے کہ علم روح کی غذا بنتا ہے جیسا کہ طعام بدن کے لئے غذا ہوتا ہے ۔ فجج الفَجُّ : شُقَّةٌ يکتنفها جبلان، ويستعمل في الطّريق الواسع، وجمعه فِجَاجٌ. قال : مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ [ الحج/ 27] ، فِيها فِجاجاً سُبُلًا[ الأنبیاء/ 31] . والفَجَجُ : تباعد الرّکبتین، وهو أَفَجُّ بيّن الفجج، ومنه : حافر مُفَجَّجٌ ، وجرح فَجٌّ: لم ينضج . (ج ج ) الفج دو پہاڑوں کے درمیان کشادگی کو کہتے ہیں اس کے بعد وسیع راستہ کے معنی میں استعمال ہونا لگا ہے ۔ اس کی جمع فجاج ہے قرآن میں ہے : مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ [ الحج/ 27] دور ( دراز ) راستوں سے ۔ فِيها فِجاجاً سُبُلًا[ الأنبیاء/ 31] اسمیں کشادہ رستے الگ انسان کے دونوں گھنٹوں میں کشادگی ہونا اور ایسے آدمی کو جس کے گھنٹوں میں کشادگی ہو افج کہتے ہیں ۔ اسی سے حافر مفج سے یعنی وہ گھوڑا جس کی ٹانگوں کے درمیان کشادگی ہو اور خام زخم کو جوج فیج کہ جاتا ہے ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔
Top