Mufradat-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 56
قَالَ بَلْ رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الَّذِیْ فَطَرَهُنَّ١ۖ٘ وَ اَنَا عَلٰى ذٰلِكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ
قَالَ : اس نے کہا بَلْ : بلکہ رَّبُّكُمْ : تمہارا رب رَبُّ : رب (مالک) السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین الَّذِيْ : وہ جس نے فَطَرَهُنَّ : انہیں پیدا کیا ڮ وَاَنَا : اور میں عَلٰي ذٰلِكُمْ : اس بات پر مِّنَ : سے الشّٰهِدِيْنَ : گواہ (جمع)
(ابراہیم نے) کہا (نہیں) بلکہ تمہارا پروردگار آسمانوں اور زمین کا پروردگار ہے، جس نے ان کو پیدا کیا ہے اور میں اس (بات) کا گواہ (اور اسی کا قائل) ہوں
قَالَ بَلْ رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الَّذِيْ فَطَرَہُنَّ۝ 0ۡۖ وَاَنَا عَلٰي ذٰلِكُمْ مِّنَ الشّٰہِدِيْنَ۝ 56 رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ فطر أصل الفَطْرِ : الشّقُّ طولا، وفِطْرَةُ اللہ : هي ما رکز فيه من قوّته علی معرفة الإيمان، وهو المشار إليه بقوله : وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ [ الزخرف/ 87] ، وقال : الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ فاطر/ 1] (ط ر ) الفطر ( ن ض ) اس کے اصل معنی کسی چیز کو ( پہلی مرتبہ ) طول میں پھاڑنے کے ہیں ۔ اسی سے فطرت ہے جس کے معنی تخلیق کے ہیں اور فطر اللہ الخلق کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی تخلیق اسطرح کی ہے کہ اس میں کچھ کرنے کی استعداد موجود ہے پس آیت کریمہ ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ فاطر/ 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے ۔ الَّذِي فَطَرَهُنَّ [ الأنبیاء/ 56] جس نے ان کو پیدا کیا شهد وشَهِدْتُ يقال علی ضربین : أحدهما جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول : أشهد . والثاني يجري مجری القسم، فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے
Top