Mufradat-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 78
وَ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ اِذْ یَحْكُمٰنِ فِی الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِیْهِ غَنَمُ الْقَوْمِ١ۚ وَ كُنَّا لِحُكْمِهِمْ شٰهِدِیْنَۗۙ
وَدَاوٗدَ : اور داو ود وَسُلَيْمٰنَ : اور سلیمان اِذْ : جب يَحْكُمٰنِ : فیصلہ کر رہے تھے فِي الْحَرْثِ : کھیتی (کے بارہ) میں اِذْ : جب نَفَشَتْ : رات میں چوگئیں فِيْهِ : اس میں غَنَمُ الْقَوْمِ : ایک قوم کی بکریاں وَكُنَّا : اور ہم تھے لِحُكْمِهِمْ : ان کے فیصلے (کے وقت) شٰهِدِيْنَ : موجود
اور داود اور سلیمان (کاحال بھی سن لو کہ) جب وہ ایک کھیتی کا مقدمہ فیصل کرنے لگے جس میں کچھ لوگوں کی بکریاں رات کو چرگئیں (اور اسے روندگئی) تھیں اور ہم ان کے فیصلہ کے وقت موجود تھے
وَدَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ اِذْ يَحْكُمٰنِ فِي الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِيْہِ غَنَمُ الْقَوْمِ۝ 0ۚ وَكُنَّا لِحُـكْمِہِمْ شٰہِدِيْنَ۝ 78ۤۙ داود داود اسم أعجميّ. ( د و د ) داؤد ) (علیہ السلام) یہ عجمی نام ہے اور عجمہ وعلمیت کی بنا پر غیر منصرف ہے ) حكم والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] ( ح ک م ) حکم الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔ حرث الحَرْث : إلقاء البذر في الأرض وتهيّؤها للزرع، ويسمّى المحروث حرثا، قال اللہ تعالی: أَنِ اغْدُوا عَلى حَرْثِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صارِمِينَ [ القلم/ 22] ، وتصوّر منه معنی العمارة التي تحصل عنه في قوله تعالی: مَنْ كانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ ، وَمَنْ كانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيا نُؤْتِهِ مِنْها وَما لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ [ الشوری/ 20] ، وقد ذکرت في ( مکارم الشریعة) كون الدنیا مَحْرَثا للناس، وکونهم حُرَّاثاً فيها وكيفية حرثهم «1» . وروي : «أصدق الأسماء الحارث» «2» وذلک لتصوّر معنی الکسب منه، وروي : «احرث في دنیاک لآخرتک» «3» ، وتصوّر معنی التهيّج من حرث الأرض، فقیل : حَرَثْت النّار، ولما تهيّج به النار محرث، ويقال : احرث القرآن، أي : أكثر تلاوته، وحَرَثَ ناقته : إذا استعملها، وقال معاوية «4» للأنصار : ما فعلت نواضحکم ؟ قالوا : حرثناها يوم بدر . وقال عزّ وجلّ : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ [ البقرة/ 223] ، وذلک علی سبیل التشبيه، فبالنساء زرع ما فيه بقاء نوع الإنسان، كما أنّ بالأرض زرع ما به بقاء أشخاصهم، وقوله عزّ وجل : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ، يتناول الحرثین . ( ح ر ث ) الحرث ( ن ) کے معنی زمین میں بیج ڈالنے اور اسے زراعت کے لئے تیار کرنے کے پاس اور کھیتی کو بھی حرث کہاجاتا ہے ۔ قرآں میں ہے ؛۔ أَنِ اغْدُوا عَلى حَرْثِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صارِمِينَ [ القلم/ 22] کہ اگر تم کو کاٹنا ہے تو اپنی کھیتی پر سویری ہی جا پہنچو۔ اور کھیتی سے زمین کی آبادی ہوئی ہے اس لئے حرث بمعنی آبادی آجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ مَنْ كانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ ، وَمَنْ كانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيا نُؤْتِهِ مِنْها وَما لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ [ الشوری/ 20] جو شخص آخرت کی کھیتی کا طلب گار ہے اس کو ہم اس میں سے دے دیں گے ۔ اور جو دنیا کی کھیتی کا کو خواستگار ہو اس کو ہم اس میں سے دے دیں گے اور اس کا آخرت میں کچھ حصہ نہ ہوگا ۔ اور ہم اپنی کتاب مکارم الشریعہ میں دنیا کے کھیتی اور لوگوں کے کسان ہونے اور اس میں بیج بونے کی کیفیت تفصیل سے بیان کرچکے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے (72) اصدق الاسماء الحارث کہ سب سے سچا نام حارث ہے کیونکہ اس میں کسب کے معنی پائے جاتے ہیں ایک دوسری روایت میں ہے (75) اثرث فی دنیاک لآخرتک کہ اس دنیا میں آخرت کے لئے کاشت کرلو ۔ حرث الارض ( زمین کرنا ) سے تھییج بھڑکانا کے معنی کے پیش نظر حرثت النار کہا جاتا ہے میں نے آگ بھڑکائی اور جس لکڑی سے آگ کریدی جاتی ہے اسے محرث کہا جاتا ہے ۔ کسی کا قول ہے ۔ احرث القرآن یعنی قرآن کی خوب تحقیق سے کام لو ۔ حرث ناقتہ اونٹنی کو کام اور محنت سے دبلا کردیا ۔ حضرت معاویہ نے انصار سے دریافت کیا کہ تمہارے پانی کھیچنے والے اونٹ کیا ہوئے تو انہوں نے جواب دیا :۔ حرثنا ھا یوم بدر کہ ہم نے بدر کے دن انہیں دبلا کردیا ۔ اور آیت کریمہ ؛ نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ [ البقرة/ 223] تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں تو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاؤ ۔ میں استعارۃ عورتوں کو حرث کہا ہے کہ جس طرح زمین کی کاشت پر افراد ا انسبائی بقا کا مدار ہے اس طرح نوع انسان اور اس کی نسل کا بقا عورت پر ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو ( برباد ) اور انسانوں اور حیوانوں کی ) نسل کو قابو کردے ۔ دونوں قسم کی کھیتی کو شامل ہے۔ نفش النَّفْشُ نَشْرُ الصُّوفِ. قال تعالی: كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوشِ [ القارعة/ 5] ونَفْشُ الغَنَمِ : انْتِشَارُهَا، والنَّفَشُ بالفتح : الغَنَمُ المُنْتَشِرَةُ. قال تعالی: إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ [ الأنبیاء/ 78] والإِبِلُ النَّوَافِشُ : المُتَرَدِّدَةُ لَيْلًا فِي المَرْعَى بِلَا رَاعٍ. ( نش ) النفش ( ن ) کے معنی اون دھنکنے اور پھیلانے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوشِ [ القارعة/ 5] جیسے دھنکی ہوئی ہوئی رنگ برنگ کی اون ۔ نفس الغنم رات کے وقت بکریوں کا بغیر چرا ہے کے ( چر نے کے لئے منتشر ہونا ۔ النفس ( بفتح لفا اسم وہ بکریاں جو ارت کو بغیر چرواہے کے چرنے کے لئے منتشر ہوگئی ہوں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ [ الأنبیاء/ 78] جس میں کچھ لوگوں کی بکریاں رات کو چر گئیں الابل النوا فش رات کو بغیر چر واہا ہے کہ چرنے والے اونٹ ۔ غنم الغَنَمُ معروف . قال تعالی: وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُما [ الأنعام/ 146] . والغُنْمُ : إصابته والظّفر به، ثم استعمل في كلّ مظفور به من جهة العدی وغیرهم . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ [ الأنفال/ 41] ، فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلالًا طَيِّباً [ الأنفال/ 69] ، والمَغْنَمُ : ما يُغْنَمُ ، وجمعه مَغَانِمُ. قال : فَعِنْدَ اللَّهِ مَغانِمُ كَثِيرَةٌ [ النساء/ 94] . ( غ ن م ) الغنم بکریاں ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُما [ الأنعام/ 146] اور گائیوں اور بکریوں سے ان کی چربی حرام کردی تھی ۔ الغنم کے اصل معنی کہیں سے بکریوں کا ہاتھ لگنا ۔ اور ان کو حاصل کرنے کے ہیں پھر یہ لفظ ہر اس چیز پر بولا جانے لگا ہے ۔ جو دشمن یا غیر دشمن سے حاصل ہو ۔ قرآن میں ہے : وَاعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ [ الأنفال/ 41] اور جان رکھو کہ جو چیز تم کفار سے لوٹ کر لاؤ ۔ فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلالًا طَيِّباً [ الأنفال/ 69] جو مال غنیمت تم کو ہے اسے کھاؤ کہ تمہارے لئے حلال طیب ہے ۔ المغنم مال غنیمت اس کی جمع مغانم آتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ فَعِنْدَ اللَّهِ مَغانِمُ كَثِيرَةٌ [ النساء/ 94] سو خدا کے پاس بہت سی غنیمتں ہیں ۔ شهد وشَهِدْتُ يقال علی ضربین : أحدهما جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول : أشهد . والثاني يجري مجری القسم، فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے
Top