Mufradat-ul-Quran - Al-Hajj : 27
وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّ عَلٰى كُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍۙ
وَاَذِّنْ : اور اعلان کردو فِي النَّاسِ : لوگوں میں بِالْحَجِّ : حج کا يَاْتُوْكَ : وہ تیرے پاس آئیں رِجَالًا : پیدل وَّعَلٰي : اور پر كُلِّ ضَامِرٍ : ہر دبلی اونٹنی يَّاْتِيْنَ : وہ آتی ہیں مِنْ : سے كُلِّ فَجٍّ : ہر راستہ عَمِيْقٍ : دور دراز
اور لوگوں میں حج کے لئے ندا کردو کہ تمہاری طرف پیدل اور دبلے دبلے اونٹوں پر جو دور (دراز) راستوں سے چلے آتے ہوں (سوار ہو کر) چلے آئیں
وَاَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّعَلٰي كُلِّ ضَامِرٍ يَّاْتِيْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍ۝ 27ۙ اذن ( تأذين) : كل من يعلم بشیءٍ نداءً ، قال عالی: ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ [يوسف/ 70] ، فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ [ الأعراف/ 44] ، وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ [ الحج/ 27] اذنتہ بکذا او اذنتہ کے ایک معنی ہیں یعنی اطلاع دینا اور اعلان کرنا اور اعلان کرنے والے کو مؤذن کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ } ( سورة يوسف 70) تو ایک پکارنے والے نے آواز دی کہ اے قافلے والو ۔ { فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ } ( سورة الأَعراف 44) تو اس وقت ان ایک پکارنے والا پکارا دیگا ۔ { وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ } ( سورة الحج 27) اور لوگوں میں حج کے لئے اعلان کردو ۔ حج أصل الحَجِّ القصد للزیارة، قال الشاعریحجّون بيت الزّبرقان المعصفراخصّ في تعارف الشرع بقصد بيت اللہ تعالیٰ إقامة للنسک، فقیل : الحَجّ والحِجّ ، فالحَجُّ مصدر، والحِجُّ اسم، ويوم الحجّ الأكبر يوم النحر، ويوم عرفة، وروي : «العمرة الحجّ الأصغر» ( ح ج ج ) الحج ( ن ) کے اصل معنی کسی کی زیارت کا قصد اور ارادہ کرنے کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (99) یحجون سب الزیتون المعصفرا وہ زبر قان کے زر رنگ کے عمامہ کی زیارت کرتے ہیں ۔ اور اصطلاح شریعت میں اقامت نسک کے ارادہ سے بیت اللہ کا قصد کرنے کا نام حج ہے ۔ الحج ( بفتح الما) مصدر ہے اور الحج ( بکسرالحا) اسم ہے اور آیت کریمہ :۔ ويوم الحجّ الأكبر يوم میں حج اکبر سے مراد یوم نحر یا یوم عرفہ ہے ۔ ایک روایت میں ہے :۔ العمرۃ الحج الاصغر عمر حج اصغر ہے ۔ رِّجْلُ : العضو المخصوص بأكثر الحیوان، قال تعالی: وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة/ 6] ، واشتقّ من الرِّجْلِ رَجِلٌ ورَاجِلٌ للماشي بالرِّجْل، ورَاجِلٌ بيّن الرُّجْلَةِ «1» ، فجمع الرَّاجِلُ رَجَّالَةٌ ورَجْلٌ ، نحو : ركب، ورِجَالٌ نحو : رکاب لجمع الرّاكب . ويقال : رَجُلٌ رَاجِلٌ ، أي : قويّ علی المشي، جمعه رِجَالٌ ، نحو قوله تعالی: فَرِجالًا أَوْ رُكْباناً [ البقرة/ 239] ، الرجل ۔ پاؤں ۔ اس کی جمع ارجل آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة/ 6] اپنے سروں کا مسح کرلیا کرو اور اپنے پاؤں بھی ٹخنوں تک دھو لیا کرو ۔ راجل ورجل پا پیادہ چلنے والا یہ بھی الرجل بمعنی پاؤں سے مشتق ہے اور راجل کی جمع رجالۃ اور رجل آتی ہے جیسے رکب جو کہ راکب کی جمع ہے اور راجل کی جمع رجال بھی آجاتی ہے جیسے راکب ورکاب ۔ اور رجل راجل اسے کہتے ہیں جو چلنے پر قدرت رکھتا ہو اس کی جمع رجال آجاتی ہے قرآن میں ہے : ۔ فَرِجالًا أَوْ رُكْباناً [ البقرة/ 239] تو پاؤں پیدل یا سوار ۔ ضمر ( ضمیر) الضَّامِرُ من الفرس : الخفیف اللّحم من الأعمال لا من الهزال . قال تعالی: وَعَلى كُلِّ ضامِرٍ [ الحج/ 27] ، يقال : ضَمَرَ ضُمُوراً «2» ، واضْطَمَرَ فهو مُضْطَمِرٌ ، وضَمَّرِّتُهُ أنا، والمِضْمَارُ : الموضع الذي يُضْمَرُ فيه . والضَّمِيرُ : ما ينطوي عليه القلب، ويدقّ علی الوقوف عليه، وقد تسمّى القوّة الحافظة لذلک ضَمِيراً. ( ض م ر ) الضامر اس چھر یرے گھوڑے کو کہتے ہیں جس کا دبلا پن لاغری کی وجہ سے نہ ہو بلکہ اس ریا ضت کی وجہ سے ہو جو سدھا نے کے لئے اس سے کرائی جاتی ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَعَلى كُلِّ ضامِرٍ [ الحج/ 27] دبلی سواریوں پر ۔ ضمر ضمورا واضتمر فھو مضتمیر کے معنی لاغر ہوجانا کے ہیں اور ضمرتہ کے معنی لاغر کردینا کے ۔ المضمار ( گھوڑ دوڑ کا میدان جہاں گھوڑوں کو دوڑانے کی مشق کرائی جاتی ہے ۔ الضمیر وہ بات جو تمہارے دل میں ہو اور اس پر اطلاع پانا دشوار ہو اسی وجہ سے کبھی ضمیر کا لفظ قوت حافظہ پر بھی بولاجاتا ہے ۔ فجج الفَجُّ : شُقَّةٌ يکتنفها جبلان، ويستعمل في الطّريق الواسع، وجمعه فِجَاجٌ. قال : مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ [ الحج/ 27] ، فِيها فِجاجاً سُبُلًا[ الأنبیاء/ 31] . والفَجَجُ : تباعد الرّکبتین، وهو أَفَجُّ بيّن الفجج، ومنه : حافر مُفَجَّجٌ ، وجرح فَجٌّ: لم ينضج . (ج ج ) الفج دو پہاڑوں کے درمیان کشادگی کو کہتے ہیں اس کے بعد وسیع راستہ کے معنی میں استعمال ہونا لگا ہے ۔ اس کی جمع فجاج ہے قرآن میں ہے : مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ [ الحج/ 27] دور ( دراز ) راستوں سے ۔ فِيها فِجاجاً سُبُلًا[ الأنبیاء/ 31] اسمیں کشادہ رستے الگ انسان کے دونوں گھنٹوں میں کشادگی ہونا اور ایسے آدمی کو جس کے گھنٹوں میں کشادگی ہو افج کہتے ہیں ۔ اسی سے حافر مفج سے یعنی وہ گھوڑا جس کی ٹانگوں کے درمیان کشادگی ہو اور خام زخم کو جوج فیج کہ جاتا ہے ۔ عمق قال تعالی: مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ [ الحج/ 27] ، أي : بعید . وأصل العُمْقِ : البعد سفلا، يقال : بئر عَمِيقٌ ومَعِيقٌ «5» : إذا کانت بعیدة القعر . ( ع م ق ) العمق ۔ دراصل اس کے معنی نیچے کی طرف دوری یعنی گہرائی کے ہیں اس لئے بہت گہرے کنویں کو بئر عمیق ومعیق کہا جاتا ہے ۔ ( راستے کی صفت ہو تو اس کے معنی دور رداز راستہ کے ہوتے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ [ الحج/ 27] دور رداز راستے سے ۔
Top