Mufradat-ul-Quran - Al-Hajj : 9
ثَانِیَ عِطْفِهٖ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ لَهٗ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ نُذِیْقُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَذَابَ الْحَرِیْقِ
ثَانِيَ عِطْفِهٖ : موڑے ہوئے اپنی گردن لِيُضِلَّ : تاکہ گمراہ کرے عَنْ : سے سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ لَهٗ : اس کے لیے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں خِزْيٌ : رسوائی وَّنُذِيْقُهٗ : اور ہم اسے چکھائیں گے يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت عَذَابَ : عذاب الْحَرِيْقِ : جلتی آگ
(اور تکبر سے) گردن موڑ لیتا (ہے) تاکہ (لوگوں کو) خدا کے راستے سے گمراہ کر دے اس کے لئے دنیا میں ذلت ہے اور قیامت کے دن ہم اسے عذاب (آتش) سوزاں کا مزہ چکھائیں گے
ثَانِيَ عِطْفِہٖ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ۝ 0ۭ لَہٗ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَّنُذِيْقُہٗ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ عَذَابَ الْحَرِيْقِ۝ 9 ثنی الثَّنْي والاثنان أصل لمتصرفات هذه الکلمة، ويقال ذلک باعتبار العدد، أو باعتبار التکرير الموجود فيه ويقال للاوي الشیء : قد ثَناه، نحو قوله تعالی: أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ [هود/ 5] ، وقراءة ابن عباس : (يَثْنَوْنَى صدورهم) ( ث ن ی ) الثنی والاثنان ۔ یہ دونوں ان تمام کلمات کی اصل ہیں جو اس مادہ سے بنتے ہیں یہ کبھی معنی عدد کے اعتبار سے استعمال ہوتے ہیں اور کبھی تکرار معنی کے لحاظ سے جو ان کے اصل مادہ میں پایا جاتا ہے۔ ثنا ( ض) ثنیا ۔ الشئی کسی چیز کو موڑنا دوسرا کرنا لپیٹنا قرآن میں ہے :۔ أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ [هود/ 5] دیکھو یہ اپنے سینوں کو دوہرا کرتے ہیں ۔ حضرت ابن عباس کی قرآت یثنونیٰ صدورھم ہے ۔ عطف العَطْفُ يقال في الشیء إذا ثني أحد طرفيه إلى الآخر، کعطف الغصن والوسادة والحبل، ومنه قيل للرّداء المثنيّ : عِطَاف، وعِطْفَا الإنسان : جانباه من لدن رأسه إلى وركه، وهو الذي يمكنه أن يلقيه من بدنه . ويقال : ثنی عِطْفَهُ : إذا أعرض وجفا، نحو : نَأى بِجانِبِهِ [ الإسراء/ 83] ، وصعّر بخدّه، ونحو ذلک من الألفاظ «4» ، ويستعار للمیل والشّفقة إذا عدّي بعلی، يقال : عَطَفَ عليه وثناه، عاطفة رحم، وظبية عاطفة علی ولدها، وناقة عَطُوف علی بوّها «5» ، وإذا عدّي بعن يكون علی الضّدّ ، نحو : عَطَفْتُ عن فلان . ( ع ط) العطف ( ن ) کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے جب کسی چیز کا ایک سرا دوسرے کی طرف موڑ دیا جائے مثلا رسی درخت کی ٹہنی وغیرہ کو دوہرا کرنے کو عطف کہا جاتا ہے اور عطاف کے معنی دو تہوں والی چادر کے ہیں ۔ عطفا الانسان انسان کے دونوں پہلو یعنی سر سے لے کر سرین تک کے دونوں جانب بدن کے اس حصہ کو آسانی سے موڑا جاسکتا ہے ثنی عطفہ کے معنی ہیں اعراض کرنا اور دور ہونا جیسا کہ نای بجنبہ وصعر نجد ہ وغیرہ محاورات ہیں جب یہ لفظ علیٰ کے واسطہ سے متعدی ہو تو اس کے معنی کیس پر مائل ہونے اور شفقت کرنا آتے ہیں چناچہ کہا جاتا ہے : ۔ عطف علیہ وثنا ہ عاطفہ رحم ظبیۃ عاطف علی ولدھا وناقۃ عطوف علٰی بوھا وغیرہ اور جب تعدیہ بواسطہ عن ہو تو اس کے معنی اعراض کرنا اور دور ہونا ہوتے ہیں جیسے عطفت عن فلان میں نے فلاں سے اعراض کیا ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ خزی خَزِيَ الرّجل : لحقه انکسار، إمّا من نفسه، وإمّا من غيره . فالذي يلحقه من نفسه هو الحیاء المفرط، ومصدره الخَزَايَة «2» ورجل خَزْيَان، وامرأة خَزْيَى وجمعه خَزَايَا . وفي الحدیث : «اللهمّ احشرنا غير خزایا ولا نادمین» «3» . والذي يلحقه من غيره يقال : هو ضرب من الاستخفاف، ومصدره الخِزْي، ورجل خز . قال تعالی: ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا [ المائدة/ 33] ، ( خ ز ی ) خزی ( س ) الرجل رسوا ہونا ۔ خواہ وہ رسوائی انسان کو خود اس کی ذات سے لاحق ہو یا غیر کی طرف سے پھر رسوائی اپنی جانب سے لاحق ہوتی ہے اسے حیائے مفرط کہاجاتا ہے اور اس کا مصدر خزابۃ ہے ۔ اس سے صیغہ صفت مذکر خزبان اور مونث خزلی خزابا ۔ حدیث میں ہے (110) اللھم احشرنا غیر خزایا و الاناد میں اے خدا ہمیں اس حالت میں زندہ نہ کرنا ہم شرم اور ندامت محسوس کرنیوالے ہوں ۔ اور جو رسوائی دوسروں کی طرف سے لاحق ہوتی ہے وہ ذلت کی ایک قسم ہے ۔ اور اس کا مصدر خزی ہے ۔ اور رجل خزی کے معنی ذلیل آدمی کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا :۔ ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا [ المائدة/ 33] دنیا میں انکی سوائی ہے ۔ کہ رسوائی اور برائی ہے ۔ ذوق الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له : الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] ( ذ و ق ) الذاق ( ن ) کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔ قِيامَةُ والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] ، القیامتہ سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔ حرق يقال : أَحْرَقَ كذا فاحترق، والحریق : النّار، وقال تعالی: وَذُوقُوا عَذابَ الْحَرِيقِ [ الحج/ 22] ، وقال تعالی: فَأَصابَها إِعْصارٌ فِيهِ نارٌ فَاحْتَرَقَتْ [ البقرة/ 266] ، وقالُوا : حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ [ الأنبیاء/ 68] ، لَنُحَرِّقَنَّهُ [ طه/ 97] ، و ( لنحرقنّه) «3» ، قرئا معا، فَحَرْقُ الشیء : إيقاع حرارة في الشیء من غير لهيب، کحرق الثوب بالدّق «4» ، وحَرَقَ الشیء : إذا برده بالمبرد، وعنه استعیر : حرق الناب، وقولهم : يحرق عليّ الأرّم «5» ، وحرق الشعر : إذا انتشر، وماء حُرَاق : يحرق بملوحته، والإحراق : إيقاع نار ذات لهيب في الشیء، ومنه استعیر : أحرقني بلومه : إذا بالغ في أذيّته بلوم . ( ح ر ق ) احرق کذا ۔ کسی چیز کو جلانا ) احترق ( جلنا ) الحریق ( آگ) قرآن میں ہے :۔ وَذُوقُوا عَذابَ الْحَرِيقِ [ الحج/ 22] کہ عذاب ( آتش ) سوزاں کے مزے چکھتے رہو ۔ فَأَصابَها إِعْصارٌ فِيهِ نارٌ فَاحْتَرَقَتْ [ البقرة/ 266] تو ( ناگہاں ) اس باغ پر آگ کا بھرا ہوا بگولا چلے اور وہ جل ( کر راکھ کا ڈھیرہو ) جائے ۔ وقالُوا : حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ [ الأنبیاء/ 68] ( تب ) وہ کہنے لگے ۔۔۔۔ تو اس کو جلادو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو ۔ لَنُحَرِّقَنَّهُ [ طه/ 97] ہم اسے جلا دیں گے ۔ ایک قرآت میں لنحرقنہ ہے ۔ پس حرق الشئ کے معنی کسی چیز میں بغیر اشتعال کے جلن پیدا کرنے کے ہیں جیسے دھوبی کے پٹخنے سے کپڑے کا پھٹ جانا ۔ حرق ( ن ) الشئی ریتی سے رگڑنا اسی سے حرق الناب کا محاورہ ہے جس کے معنی دانت پیسنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ یحرق علی الارم یعنی وہ مجھ پر دانت پیستا ہے ۔ حرق الشعر ۔ بالوں کا منتشر ہونا ۔ ماء حراق بہت کھاری پانی جو کھا ری پن سے جلا ڈالے ۔ الاحراق کسی چیز کو جلانا اسی سے استعارۃ جب کہ بہت زیادہ ملامت کرکے اذیت پہنچائے تو کہا جاتا ہے ۔ احرقبی بلومہ یعنی اس نے مجھے ملامت سے جلا ڈالا ۔
Top