Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 65
وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ١ۖۗ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًاۗۖ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں رَبَّنَا : اے ہمارے رب اصْرِفْ : پھیر دے عَنَّا : ہم سے عَذَابَ جَهَنَّمَ : جہنم کا عذاب اِنَّ : بیشک عَذَابَهَا : اس کا عذاب كَانَ غَرَامًا : لازم ہوجانے والا ہے
اور وہ جو دعا مانگتے رہتے ہیں کہ اے پروردگار دوزخ کے عذاب کو ہم سے دور رکھیو کہ اس کا عذاب بڑی تکلیف کی چیز ہے
وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ۝ 0 ۤۖ اِنَّ عَذَابَہَا كَانَ غَرَامًا۝ 6 5ۤۖ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ صرف الصَّرْفُ : ردّ الشیء من حالة إلى حالة، أو إبداله بغیره، يقال : صَرَفْتُهُ فَانْصَرَفَ. قال تعالی: ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] ( ص ر) الصرف کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا یا کسی اور چیز سے بدل دینا ۔ محاور ہ ہے ۔ صرفتہ فانصرف میں نے اسے پھیر دیا چناچہ وہ پھر گیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] پھر خدا نے تم کو ان کے مقابلے سے پھیر کر بھگادیا ۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام «1» ، وقال أبو مسلم : كهنّام «2» ، والله أعلم . ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ غرم الغُرْمُ : ما ينوب الإنسان في ماله من ضرر لغیر جناية منه، أو خيانة، يقال : غَرِمَ كذا غُرْماً ومَغْرَماً ، وأُغْرِمَ فلان غَرَامَةً. قال تعالی: إِنَّا لَمُغْرَمُونَ [ الواقعة/ 66] ، فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ القلم/ 46] ، يَتَّخِذُ ما يُنْفِقُ مَغْرَماً [ التوبة/ 98] . والغَرِيمُ يقال لمن له الدّين، ولمن عليه الدّين . قال تعالی: وَالْغارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 60] ، والغَرَامُ : ما ينوب الإنسان من شدّة ومصیبة، قال : إِنَّ عَذابَها كانَ غَراماً [ الفرقان/ 65] ، من قولهم : هو مُغْرَمٌ بالنّساء، أي : يلازمهنّ ملازمة الْغَرِيمِ. قال الحسن : كلّ غَرِيمٍ مفارق غَرِيمَهُ إلا النّار «1» ، وقیل : معناه : مشغوفا بإهلاكه . ( غ ر م ) الغرم ( مفت کا تاوان یا جرمانہ ) وہ مالی نقصان جو کسی قسم کی خیانت یا جنایت ( جرم) کا ارتکاب کئے بغیر انسان کو اٹھانا پڑے غرم کذا غرما ومبغرما فلاں نے نقصان اٹھایا اغرم فلان غرامۃ اس پر تاوان پڑگیا ۔ قرآن میں ہے :إِنَّا لَمُغْرَمُونَ [ الواقعة/ 66]( کہ ہائے ) ہم مفت تاوان میں پھنس گئے ۔ فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ القلم/ 46] کہ ان پر تاوان کا بوجھ پڑ رہا ہے ۔ يَتَّخِذُ ما يُنْفِقُ مَغْرَماً [ التوبة/ 98] . کہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں ۔ اور غریم کا لفظ مقروض اور قرض خواہ دونوں کے لئے آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالْغارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 60] اور قرضداروں ( کے قرض ادا کرنے ) کے لئے اور خدا کی راہ میں ۔ اور جو تکلیف یا مصیبت انسان کی پہنچتی ہے اسے غرام کہاجاتا ہے ۔ قرآں میں ہے : إِنَّ عَذابَها كانَ غَراماً [ الفرقان/ 65] کہ اس کا عذاب بڑی تکلیف کی چیز ہے ۔ یہ ھو مغرم باالنساء ( وہ عورتوں کا دلدا وہ ہے ) کے محاورہ سے ماخوذ ہے یعنی وہ شخص جو غریم ( قرض خواہ ) کی طرح عورتوں کے پیچھے پیچھے پھرتا ہو ۔ حسن فرماتے ہیں کل غریم مفارق غریمۃ الاالنار یعنی ہر قرض خواہ اپنے مقروض کو چھوڑ سکتا ہے ۔ لیکن آگ اپنے غرماء کو نہیں چھوڑے گی ۔ بعض نے عذاب جہنم کو غرام کہنے کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ وہ عذاب ان کا اسی طرح پیچھا کرے گا ۔ گویا وہ انہیں ہلاک کرنے پر شیفتہ ہے ۔
Top