Mufradat-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 128
اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِیْعٍ اٰیَةً تَعْبَثُوْنَ
اَتَبْنُوْنَ : کیا تم تعمیر کرتے ہو بِكُلِّ رِيْعٍ : ہر بلندی پر اٰيَةً : ایک نشانی تَعْبَثُوْنَ : کھیلنے کو (بلا ضرورت)
بھلا تم جو ہر اونچی جگہ پر نشان تعمیر کرتے ہو
اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِيْــعٍ اٰيَۃً تَعْبَثُوْنَ۝ 128ۙ بنی يقال : بَنَيْتُ أَبْنِي بِنَاءً وبِنْيَةً وبِنًى. قال عزّ وجلّ : وَبَنَيْنا فَوْقَكُمْ سَبْعاً شِداداً [ النبأ/ 12] . والبِنَاء : اسم لما يبنی بناء، قال تعالی: لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر/ 20] ، والبَنِيَّة يعبر بها عن بيت اللہ تعالیٰ «2» . قال تعالی: وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات/ 47] ، وَالسَّماءِ وَما بَناها [ الشمس/ 5] ، والبُنيان واحد لا جمع، لقوله تعالی: لا يَزالُ بُنْيانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ التوبة/ 110] ، وقال : كَأَنَّهُمْ بُنْيانٌ مَرْصُوصٌ [ الصف/ 4] ، قالُوا : ابْنُوا لَهُ بُنْياناً [ الصافات/ 97] ، وقال بعضهم : بُنْيَان جمع بُنْيَانَة، فهو مثل : شعیر وشعیرة، وتمر وتمرة، ونخل ونخلة، وهذا النحو من الجمع يصح تذكيره وتأنيثه . و ( ب ن ی ) بنیت ابنی بناء وبنیتہ وبنیا کے معنی تعمیر کرنے کے ہیں قرآن میں ہے ۔ { وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا } ( سورة النبأ 12) اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے { وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ } ( سورة الذاریات 47) اور آسمانوں کو ہم ہی نے ہاتھوں سے بنایا ۔ { وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاهَا } ( سورة الشمس 5) اور آسمان اور اس ذات کی ( قسم ) جس نے اسے بنایا ۔ البنیان یہ واحد ہے جمع نہیں ہے جیسا کہ آیات ۔ { لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ } ( سورة التوبة 110) یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں ( موجب ) خلجان رہے گی ۔ { كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ } ( سورة الصف 4) کہ گویا سیساپلائی ہوئی دیوار ہیں :{ قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ } ( سورة الصافات 97) وہ کہنے لگے کہ اس کے لئے ایک عمارت بناؤ ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ بنیانۃ کی جمع ہے اور یہ : شعیر شعیر وتمر وتمر ونخل ونخلتہ کی طرح ہے یعنی جمع اور مفرد میں تا کے ساتھ فرق کرتے ہیں اور جمع کی اس قسم میں تذکر وتانیث دونوں جائز ہوتے ہیں لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر/ 20] ان کے لئے اونچے اونچے محل ہیں جن کے اوپر بالا خانے بنے ہوئے ہیں ۔ بناء ( مصدر بمعنی مفعول ) عمارت جمع ابنیتہ البنیتہ سے بیت اللہ مراد لیا جاتا ہے ريع الرِّيعُ : المکان المرتفع الذي يبدو من بعید، الواحدة رِيعَةٌ. قال : أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آيَةً [ الشعراء/ 128] ، أي : بكلّ مکان مرتفع، وللارتفاع قيل : رَيْعُ البئر : للجثوة المرتفعة حواليها، ورَيْعَانُ كلّ شيء : أوائله التي تبدو منه، ومنه استعیر الرَّيْعُ للزیادة والارتفاع الحاصل، ومنه : تَرَيَّعَ السّراب ( ر ی ع ) الریع بلند جگہ کو کہتے ہیں ۔ جو دور سے ظاہر ہو اس کا واحد ریعۃ ہے قرآن میں ہے ۔ أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آيَةً [ الشعراء/ 128] کیا تم ہر اونچی جگہ پر بےضرورت یاد گاریں بناتے ہو ۔ اور معنی ارتفاع کے لحاظ سے کنویں کی منڈیر کو ریع کہا جاتا ہے ۔ پھر ہر چیز کے اوائل کو ریعان کہا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر ریع ہر چیز کے زائد حصہ اور بلندی کے لئے آتا ہے اور اسی سے تریع السحاب ہے جس کے معنی بادل کے نمایاں اور طاہر ہونے کے ہیں ۔ عبث العَبَثُ : أن يَخْلُطَ بعمله لعبا، من قولهم : عَبَثْتُ الأَقِطَ «3» ، والعَبَثُ : طعامٌ مخلوط بشیء، ومنه قيل : العَوْبَثَانِيُّ «4» لتمرٍ وسمن وسویق مختلط . قال تعالی: أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آيَةً تَعْبَثُونَ [ الشعراء/ 128] ، ويقال لما ليس له غرض صحیح : عَبَثٌ. قال : أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّما خَلَقْناكُمْ عَبَثاً [ المؤمنون/ 115] . ( ع ب ث ) العبث دراصل اس کے معنی ہیں کسی کام کے ساتھ کھیل کود کو ملا دینا اور یہ عبثت الاقط کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں میں نے پنیز کے ساتھ اور چیز کو ملادیا اور العبث وہ کھانا جو کسی چیز کے ساتھ خلط ملط کیا گیا ہو اسی اعتبار سے کھجور ۔ گھی اور ستو کے آمیزہ کو عوبثانی کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آيَةً تَعْبَثُونَ [ الشعراء/ 128] تم ہر بلند مقام پر بےمقصد پڑی عمارتیں تعمیر کرتے ہو نیز العبث مہر اس کام کو کہتے ہیں جس کی کوئی صحیح غرض نہ ہو قرآن میں ہے : أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّما خَلَقْناكُمْ عَبَثاً [ المؤمنون/ 115] کیا تم یہ خیال کئے بیٹھے ہو کہ ہم نے تم کو یونہی بےغرض وغایت پیدا کردیا ہے ۔
Top