Mufradat-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 18
قَالَ اَلَمْ نُرَبِّكَ فِیْنَا وَلِیْدًا وَّ لَبِثْتَ فِیْنَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِیْنَۙ
قَالَ : فرعون نے کہا اَلَمْ نُرَبِّكَ : کیا ہمنے تجھے نہیں پالا فِيْنَا : اپنے درمیان وَلِيْدًا : بچپن میں وَّلَبِثْتَ : اور تو رہا فِيْنَا : ہمارے درمیان مِنْ عُمُرِكَ : اپنی عمر کے سِنِيْنَ : کئی برس
(فرعون نے موسیٰ سے) کہا کیا ہم نے تم کو کہ ابھی بچے پرورش نہیں کیا اور تم نے برسوں ہمارے ہاں عمر بسر (نہیں) کی ؟
قَالَ اَلَمْ نُرَبِّكَ فِيْنَا وَلِيْدًا وَّلَبِثْتَ فِيْنَا مِنْ عُمُرِكَ سِـنِيْنَ۝ 18ۙ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ ولید والوَلِيدُ يقال لمن قرب عهده بالوِلَادَةِ وإن کان في الأصل يصحّ لمن قرب عهده أو بعد، كما يقال لمن قرب عهده بالاجتناء : جنيّ ، فإذا کبر الوَلَدُ سقط عنه هذا الاسم، وجمعه : وِلْدَانٌ ، قال : يَوْماً يَجْعَلُ الْوِلْدانَ شِيباً [ المزمل/ 17] والوَلِيدَةُ مختصّة بالإماء في عامّة کلامهم، واللِّدَةُ مختصّةٌ بالتِّرْبِ ، يقال : فلانٌ لِدَةُ فلانٍ ، وتِرْبُهُ ، ونقصانه الواو، لأنّ أصله وِلْدَةٌ وتَوَلُّدُ الشیءِ من الشیء : حصوله عنه بسبب من الأسباب، وجمعُ الوَلَدِ أَوْلادٌ. قال تعالی: أَنَّما أَمْوالُكُمْ وَأَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ [ التغابن/ 15] إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ [ التغابن/ 14] فجعل کلّهم فتنة وبعضهم عدوّا . وقیل : الوُلْدُ جمعُ وَلَدٍ نحو : أُسْدٍ وأَسَدٍ ، ويجوز أن يكون واحدا نحو : بُخْلٍ وبَخَلٍ ، وعُرْبٍ وعَرَبٍ ، وروي : ( وُلْدُكِ مَنْ دَمَّى عَقِبَيْكِ ) وقرئ : مَنْ لَمْ يَزِدْهُ مالُهُ وَوَلَدُهُ [ نوح/ 21] الولید ۔ عرف میں نوزائید ہ بچے پر بولاجاتا ہے ۔ اگرچہ لغت کے لحاظ سے ہر چھوٹے بڑے کو ولید کہنا صحیح ہے ۔ جیسا کہ تازہ چنے ہوئے پھل کو جنی کہاجاتا ہے پھر ججب بچہ بڑا ( یعنی بالغ ) ہوجائے تو اسے ولید نہیں کہتے ۔ اسکی جمع ولدان ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ يَوْماً يَجْعَلُ الْوِلْدانَ شِيباً [ المزمل/ 17] ( اس دن سے ) ( کیونکر بچو گے ) جو بچوں کو بوڑھا کردے گا ۔ الولید ۃ عرف عام میں کنیز کے ساتھ مختص ہے اور لدۃ خاص کر ترب ( لنگوٹیا ) کو کہتے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان لدۃ فلان وتربہ فلاں اس کا ہم عمر ہی یہ اصل میں ولدۃ ہے تخفیف کے لئے واؤ ساقط ہوگئی ہے ۔ تولد الشئی من الشئی ایک چیز کو دوسری سے پیدا ہونا ۔ اور ولد کی جمع اولاد آتی ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ أَنَّما أَمْوالُكُمْ وَأَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ [ التغابن/ 15] تمہارا مال اور اولاد بڑی آزمائش ہے ۔ إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ [ التغابن/ 14] تمہاری عوتوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن بھی ہیں ۔ ان ہر دوآیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد انسان کے لئے آزمائش ہے ۔ مگر بعض اور دوشمن ثابت ہوتی ہے، پہلی آیت میں سب کو فتنہ قرار دیا ہے ۔ لیکن دودسری آیت میں بعض کو دشمن قرار دیا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسد کی جمع ولد بھی آتی ہے جیسے اسد کی جمع اسد مگر ہوسکتا ہے کہ ولد کا لفظ مفرد جیسے بخل وبخل اور عرب وعرب کہ یہ دونوں مفرد ہیں مثل مشہور ہے ۔ ولد ک من دمٰی عقیبک یعنی تیر ا لڑکا تو وہی ہے جو تیری ایڑیوں کو خون آلود کرے یعنی جو تہمارے بطن سے پیدا ہوا ہوا اور ایک قراءت میں ہے : ۔ جن کو ان کے مال اور اولاد نے کچھ فائدہ نہیں دیا۔ لبث لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت/ 14] ، ( ل ب ث ) لبث بالمکان کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت/ 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔ عمر ( زندگی) والْعَمْرُ والْعُمُرُ : اسم لمدّة عمارة البدن بالحیاة، فهو دون البقاء، فإذا قيل : طال عُمُرُهُ ، فمعناه : عِمَارَةُ بدنِهِ بروحه، وإذا قيل : بقاؤه فلیس يقتضي ذلك، فإنّ البقاء ضدّ الفناء، ولفضل البقاء علی العمر وصف اللہ به، وقلّما وصف بالعمر . والتَّعْمِيرُ : إعطاء العمر بالفعل، أو بالقول علی سبیل الدّعاء . قال : أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ ما يَتَذَكَّرُ فِيهِ [ فاطر/ 37] ، وَما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ [ فاطر/ 11] ، وَما هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ يُعَمَّرَ [ البقرة/ 96] ، وقوله تعالی: وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس/ 68] ، قال تعالی: فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص/ 45] ، وَلَبِثْتَ فِينا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ [ الشعراء/ 18] . والعُمُرُ والْعَمْرُ واحد لکن خُصَّ القَسَمُ بِالْعَمْرِ دون العُمُرِ «3» ، نحو : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ [ الحجر/ 72] ، وعمّرک الله، أي : سألت اللہ عمرک، وخصّ هاهنا لفظ عمر لما قصد به قصد القسم، ( ع م ر ) العمارۃ اور العمر والعمر اس مدت کو کہتے میں جس میں بدن زندگی کے ساتھ آباد رہتا ہے اور یہ بقا سے فرو تر ہے چنناچہ طال عمر ہ کے معنی تو یہ ہوتے ہیں کہ اس کا بدن روح سے آباد رہے لیکن طال بقاء ہ اس مفہوم کا مقتضی نہیں ہے کیونکہ البقاء تو فناء کی ضد ہے اور چونکہ بقاء کو عمر پر فضیلت ہے اس لئے حق تعالیٰ بقاء کے ساتھ تو موصؤف ہوتا ہے مگر عمر کے ساتھ بہت کم متصف ہوتا ہے ۔ التعمیر کے معنی ہیں بالفعل عمر بڑھانا نا یا زبان کے ساتھ عمر ک اللہ کہنا یعنی خدا تیری عمر دراز کرے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ ما يَتَذَكَّرُ فِيهِ [ فاطر/ 37] کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو سوچنا چاہتا سوچ لیتا ۔ وَما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ [ فاطر/ 11] اور نہ کسی بڑی عمر والے کو عمر زیادہ دی جاتی ہے اور نہ اس کی عمر کم کی جاتی ہے ۔ وَما هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ يُعَمَّرَ [ البقرة/ 96] اگر اتنی لمبی عمر اس کو مل بھی جائے تو اسے عذاب سے تو نہیں چھڑا سکتی ۔ اور آیت : ۔ وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس/ 68] اور جس کو بڑی عمر دیتے ہیں اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں ۔ فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص/ 45] یہاں تک کہ ( اسی حالت میں ) ان کی عمر ین بسر ہوگئیں ۔ وَلَبِثْتَ فِينا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ [ الشعراء/ 18] اور تم نے برسوں ہمارے عمر بسر کی ۔ العمر والعمر کے ایک ہی معنی ہیں لیکن قسم کے موقعہ پر خاص کر العمر کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے ۔ عمر کا لفظ نہیں بولا جاتا جیسے فرمایا : ۔ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ [ الحجر/ 72] تمہاری زندگی کی قسم وہ اپنی مستی میں عمرک اللہ خدا تمہاری عمر دارز کرے یہاں بھی چونکہ قسم کی طرح تاکید مراد ہے اس لئے لفظ عمر کو خاص کیا ہے ۔
Top