Mufradat-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 184
وَ اتَّقُوا الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الْجِبِلَّةَ الْاَوَّلِیْنَؕ
وَاتَّقُوا : اور ڈرو الَّذِيْ : وہ جس نے خَلَقَكُمْ : یدا کیا تمہیں وَالْجِبِلَّةَ : اور مخلوق الْاَوَّلِيْنَ : پہلی
اور اس سے ڈرو جس نے تم کو اور تم سے پہلی خلقت کو پیدا کیا
وَاتَّقُوا الَّذِيْ خَلَقَكُمْ وَالْجِبِلَّۃَ الْاَوَّلِيْنَ۝ 184ۭ وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے جبلت وجَبَلَهُ اللہ علی كذا، إشارة إلى ما رّكب فيه من الطبع الذي يأبى علی الناقل نقله، وفلان ذو جِبِلَّة، أي : غلیظ الجسم، وثوب جيد الجبلة، وتصور منه معنی العظم، فقیل للجماعة العظیمة : جِبْلٌ. قال اللہ تعالی: وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس/ 62] ، أي : جماعة تشبيها بالجبل في العظم وقرئ : جِبِلًّا مثقّلا . قال التوزي : جُبْلًا وجَبْلًا وجُبُلًّا وجِبِلًّا . وقال غيره : جُبُلًّا جمع جِبِلَّة، ومنه قوله عزّ وجل : وَاتَّقُوا الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالْجِبِلَّةَ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء/ 184] ، أي : المجبولین علی أحوالهم التي بنوا عليها، وسبلهم التي قيّضوا لسلوکها المشار إليها بقوله تعالی: قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلى شاكِلَتِهِ [ الإسراء/ 84] ، وجَبِلَ : صار کالجبل في الغلظ . اور پہاڑ کی مختلف صفات کے اعتبار سے استعارہ ہر صفت کے مطابق اشتقاق کرلیتے ہیں مثلا معنی شجاعت کے اعتبار سے کہا جاتا ہے ؟ کہ فلاں نہ ہلنے ولا پہاڑ ہی اس کی فطرت ہی ایسی ہے یعنی تبدیل نہیں ہوسکتی ۔ فلاں بھدے جسم کا ہے ۔ عمدہ اور مضبوط بنا ہوا کپڑا ۔ اور بڑئی و عظمت کے معنی کا اعتبار کرتے ہوئے بڑی جماعت کو جبل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس/ 62] اور اس نے تم میں سے بہت سی خلقت کو گمراہ کردیا تھا ۔ ایک قرات میں جبلا تشدید کے ساتھ ہے توذی نے کہا ہے کہ جبلا وجبلا وجبلا وجبلا کے ایک ہی معنی ہیں ؟ اور دوسرے علماء نے کہا ہے جبلا جبلۃ کی جمع ہے اور اسی سے آیت وَاتَّقُوا الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالْجِبِلَّةَ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء/ 184]: میں جبلۃ سے مراد کے وہ احوال ہیں جن پر ان کو پیدا کیا تھا اور وہ راستے جن پر چلنے کے وہ فطرۃ پابند تھے جس کی طرف آیت کریمہ : ۔ قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلى شاكِلَتِهِ [ الإسراء/ 84] کہدو کہ ہر شخص اپنے طریق کے مطابق عمل کرتا ہے ۔ میں اشارہ پایا جاتا ہے جبل فلان پہاڑ کی طرح غلیظ الجسم ہے ۔
Top