Mufradat-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 90
وَ اُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِیْنَۙ
وَاُزْلِفَتِ : اور نزدیک کردی جائے گی الْجَنَّةُ : جنت لِلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
اور بہشت پرہیزگاروں کے قریب کردی جائے گی
وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِيْنَ۝ 90ۙ زلف الزُّلْفَةُ : المنزلة والحظوة «2» ، وقوله تعالی: فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً [ الملک/ 27] وقیل لمنازل اللیل : زُلَفٌ قال : وَزُلَفاً مِنَ اللَّيْلِ [هود/ 114] ( ز ل) الزلفۃ اس کے معنی قریب اور مرتبہ کے ہیں چناچہ آیت : ۔ فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً [ الملک/ 27] سو جب وہ قریب دیکھیں گے ۔ اور منازل لیل یعنی رات کے حصوں کو بھی زلف کہا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَزُلَفاً مِنَ اللَّيْلِ [هود/ 114] اور رات کے کچھ حصوں میں۔ وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔
Top