Mufradat-ul-Quran - An-Naml : 50
وَ مَكَرُوْا مَكْرًا وَّ مَكَرْنَا مَكْرًا وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ
وَمَكَرُوْا : اور انہوں نے مکر کیا مَكْرًا : ایک تدبیر وَّمَكَرْنَا : اور ہم نے خفیہ تدبیر کی مَكْرًا : ایک تدبیر وَّهُمْ : اور وہ لَا يَشْعُرُوْنَ : نہ جانتے تھے
اور وہ ایک چال چلے اور ہم بھی ایک چال چلے اور انکو کچھ خبر نہ ہوئی
وَمَكَرُوْا مَكْرًا وَّمَكَرْنَا مَكْرًا وَّہُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ۝ 50 مكر المَكْرُ : صرف الغیر عمّا يقصده بحیلة، وذلک ضربان : مکر محمود، وذلک أن يتحرّى بذلک فعل جمیل، وعلی ذلک قال : وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران/ 54] . و مذموم، وهو أن يتحرّى به فعل قبیح، قال تعالی: وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر/ 43] ( م ک ر ) المکر ک ے معنی کسی شخص کو حیلہ کے ساتھ اس کے مقصد سے پھیر دینے کے ہیں یہ دو قسم پر ہے ( 1) اگر اس سے کوئی اچھا فعل مقصود ہو تو محمود ہوتا ہے ورنہ مذموم چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران/ 54] اور خدا خوب چال چلنے والا ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔ اور دوسرے معنی کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر/ 43] اور بری چال کا وبال اس کے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے : شعور الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا . شعور حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔
Top