Mufradat-ul-Quran - An-Naml : 54
وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ
وَلُوْطًا : اور لوط اِذْ قَالَ : جب اس نے کہا لِقَوْمِهٖٓ : اپنی قوم اَتَاْتُوْنَ : کیا تم آگئے (اتر آئے) ہو الْفَاحِشَةَ : بےحیائی وَاَنْتُمْ : اور تم تُبْصِرُوْنَ : دیکھتے ہو
اور لوط کو (یاد کرو) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم بےحیائی (کے کام) کیوں کرتے ہو اور تم دیکھتے ہو
وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖٓ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَۃَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ۝ 54 لوط لُوطٌ: اسم علم، واشتقاقه من لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، وفي الحدیث : «الولد أَلْوَطُ- أي : ألصق۔ بالکبد» وهذا أمر لا يَلْتَاطُ بصفري . أي : لا يلصق بقلبي، ولُطْتُ الحوض بالطّين لَوْطاً : ملطته به، وقولهم : لَوَّطَ فلان : إذا تعاطی فعل قوم لوط، فمن طریق الاشتقاق، فإنّه اشتقّ من لفظ لوط الناهي عن ذلک لا من لفظ المتعاطین له . ( ل و ط ) لوط ( حضرت لوط (علیہ السلام) ) یہ اسم علم ہے لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، سے مشتق ہے جس کے معنی کسی چیز کی محبت دل میں جاگزیں اور پیوست ہوجانے کے ہیں ۔ حدیث میں ہے ۔ (115) الولد الوط بالکید ۔ کہ اولاد سے جگری محبت ہوتی ہے ۔ ھذا امر لایلنا ط بصفری ۔ یہ بات میرے دل کو نہیں بھاتی ۔ لطت الحوض بالطین لوطا ۔ میں نے حوض پر کہگل کی ۔ گارے سے پلستر کیا ۔۔۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے نام سے اشتقاق کرکے تولط فلان کا محاورہ ستعمال ہوتا ہے جس کے معنی خلاف فطرت فعل کرنا ہیں حالانکہ حضرت لوط (علیہ السلام) تو اس فعل سے منع کرتے تھے اور اسے قوم لوط س مشتق نہیں کیا گیا جو اس کا ارتکاب کرتے تھے ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے فحش الفُحْشُ والفَحْشَاءُ والفَاحِشَةُ : ما عظم قبحه من الأفعال والأقوال، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف/ 28] (ح ش ) الفحش والفحشاء والفاحشۃ اس قول یا فعل کو کہتے ہیں جو قباحت میں حد سے بڑھا ہوا ہو ۔ قرآن میں ہے : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف/ 28] کہ خدا بےحیائی کے کام کرنے کا حکم ہر گز نہیں دیتا ۔ ( بصر) مبصرۃ بَاصِرَة عبارة عن الجارحة الناظرة، يقال : رأيته لمحا باصرا، أي : نظرا بتحدیق، قال عزّ وجل : فَلَمَّا جاءَتْهُمْ آياتُنا مُبْصِرَةً [ النمل/ 13] ، وَجَعَلْنا آيَةَ النَّهارِ مُبْصِرَةً [ الإسراء/ 12] أي : مضيئة للأبصار وکذلک قوله عزّ وجلّ : وَآتَيْنا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً [ الإسراء/ 59] ، وقیل : معناه صار أهله بصراء نحو قولهم : رجل مخبث ومضعف، أي : أهله خبثاء وضعفاء، وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ مِنْ بَعْدِ ما أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولی بَصائِرَ لِلنَّاسِ [ القصص/ 43] أي : جعلناها عبرة لهم، الباصرۃ کے معنی ظاہری آنکھ کے ہیں ۔ محاورہ ہے رائتہ لمحا باصرا میں نے اسے عیال طور پر دیکھا ۔ المبصرۃ روشن اور واضح دلیل ۔ قرآن میں ہے :۔ فَلَمَّا جاءَتْهُمْ آياتُنا مُبْصِرَةً [ النمل/ 13] جن ان کے پاس ہماری روشن نشانیاں پہنچیں یعنی ہم نے دن کی نشانیاں کو قطروں کی روشنی دینے والی بنایا ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَآتَيْنا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً [ الإسراء/ 59] اور ہم نے ثمود کی اونٹنی ( نبوت صالح) کی کھل نشانی دی میں مبصرۃ اسی معنی پر محمول ہے بعض نے کہا ہے کہ یہاں مبصرۃ کے معنی ہیں کہ ایسی نشانی جس سے ان کی آنکھ کھل گئی ۔ جیسا کہ رجل مخبث و مصعف اس آدمی کو کہتے ہیں جس کے اہل اور قریبی شت دار خبیث اور ضعیب ہوں اور آیت کریمہ ؛۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ مِنْ بَعْدِ ما أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولی بَصائِرَ لِلنَّاسِ [ القصص/ 43] میں بصائر بصیرۃ کی جمع ہے جس کے معنی عبرت کے ہیں یعنی ہم نے پہلی قوموں کی ہلاکت کو ان کے لئے تازہ یا عبرت بنادیا
Top