Mufradat-ul-Quran - An-Naml : 72
قُلْ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ رَدِفَ لَكُمْ بَعْضُ الَّذِیْ تَسْتَعْجِلُوْنَ
قُلْ : فرما دیں عَسٰٓى : شاید اَنْ : کہ يَّكُوْنَ : ہوگیا ہو رَدِفَ : قریب لَكُمْ : تمہارے لیے بَعْضُ : کچھ الَّذِيْ : وہ جو۔ وہ جس تَسْتَعْجِلُوْنَ : تم جلدی کرتے ہو
کہہ دو کہ جس (عذاب) کے لئے تم جلدی کر رہے ہو شاید اس میں سے کچھ تمہارے نزدیک آپہنچا ہو
قُلْ عَسٰٓى اَنْ يَّكُوْنَ رَدِفَ لَكُمْ بَعْضُ الَّذِيْ تَسْتَعْجِلُوْنَ۝ 72 عسی عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف/ 129] ، أي : کونوا راجین في ذلك . فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة/ 52] ، عَسى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ [ التحریم/ 5] ، وَعَسى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئاً وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ [ البقرة/ 216] ، فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ [ محمد/ 22] ، هَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتالُ [ البقرة/ 246] ، فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئاً وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْراً كَثِيراً [ النساء/ 19] . والمُعْسِيَاتُ «1» من الإبل : ما انقطع لبنه فيرجی أن يعود لبنها، فيقال : عَسِيَ الشّيءُ يَعْسُو : إذا صَلُبَ ، وعَسِيَ اللّيلُ يَعْسَى. أي : أَظْلَمَ. «2» . ( ع س ی ) عسیٰ کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف/ 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے اسی طرح فرمایا : ۔ فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة/ 52] سو قریب ہے کہ خدا فتح بھیجے عَسى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ [ التحریم/ 5] اگر پیغمبر تم کو طلاق دے دیں تو عجب نہیں کہ انکار پروردگار وَعَسى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئاً وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ [ البقرة/ 216] مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو ۔ فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ [ محمد/ 22] تم سے عجب نہیں کہ اگر تم حاکم ہوجاؤ ۔ هَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتالُ [ البقرة/ 246] کہ اگر تم کو جہاد کا حکم دیا جائے تو عجب نہیں فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئاً وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْراً كَثِيراً [ النساء/ 19] اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور خدا اس میں بہت سی بھلائی پیدا کر دے ۔ المعسیانشتر مادہ جس کا دودھ منقطع ہوگیا ہو اور اس کے لوٹ آنے کی امید ہو ۔ عسی الیل یعسو رات کا تاریک ہوجانا ۔ ردف الرِّدْفُ : التابع، ورِدْفُ المرأة : عجیزتها، والتَّرَادُفُ : التتابع، والرَّادِفُ : المتأخّر، والمُرْدِفُ : المتقدّم الذي أَرْدَفَ غيره، قال تعالی: فَاسْتَجابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُرْدِفِينَ [ الأنفال/ 9] ، قال أبو عبیدة : مردفین : جائين بعد «1» ، فجعل رَدِفَ وأَرْدَفَ بمعنی واحد، وأنشدإذا الجوزاء أَرْدَفَتِ الثّري وقال غيره : معناه مردفین ملائكة أخری، فعلی هذا يکونون ممدّين بألفین من الملائكة، وقیل : عنی بِالْمُرْدِفِينَ المتقدّمين للعسکر يلقون في قلوب العدی الرّعب . وقرئ مُرْدِفِين أي : أُرْدِفَ كلّ إنسان ملکا، ( ومُرَدَّفِينَ ) يعني مُرْتَدِفِينَ ، فأدغم التاء في الدّال، وطرح حركة التاء علی الدّال . وقد قال في سورة آل عمران : أَلَنْ يَكْفِيَكُمْ أَنْ يُمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلاثَةِ آلافٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُنْزَلِينَ بَلى إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُمْ مِنْ فَوْرِهِمْ هذا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُسَوِّمِينَ. وأَرْدَفْتُهُ : حملته علی رِدْفِ الفرس، والرِّدَافُ : مرکب الرّدف، ودابّة لا تُرَادَفُ ولا تُرْدَفُ وجاء واحد فأردفه آخر . وأَرْدَافُ الملوکِ : الذین يخلفونهم . ( ر د ف) الردف تابع یعنی ہر وہ چیز جو دوسرے کے پیچھے ہو اور ردف المرءۃ کے معنی عورت کے سرین کے ہیں ۔ الترادف یکے بعد دیگرے آنا ۔ ایک دوسرے کی پیروی کرنا ۔ الرادف ۔ متاخر یعنی پچھلا ۔ المردف اگلا جس نے اپنے پیچھے کسی کو سوار کیا ہو ۔ قرآن میں ہے : فَاسْتَجابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَالْمَلائِكَةِ مُرْدِفِينَ [ الأنفال/ 9] سو اس نے تمہاری سن لی ( اور فرمایا ) کہ ہم لگاتار ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ تمہاری مدد کریں گے ۔ ابو عبیدہ کے نزدیک ردف واردف یعنی مجرد اور مزید فیہ ایک ہی معنی میں آتے ہیں اس لئے انہوں نے مردفین کا معنی بعد میں آنے والے کیا ہے ۔ اور یہ شاید پیش کیا ہے ۔ (179) " اذا الجوزاء اردفت الثریا " جب ثریا کے پیچھے جوزاء ستار نگل آیا ۔ مگر ابو عبیدہ کے علاوہ دوسرے علماء نے مردفین کے معنی یہ کئے ہیں کہ " دوسرے فرشتوں کو پیچھے لانے والے " تو اس لحاظ سے گویا دو ہزار فرشتوں کے ساتھ مسلمانوں کی مدد کی گئی تھی ۔ بعض نے کہا ہے مردفین سے مراد وہ فرشتے ہیں ۔ جو اسلامی لشکر کے آگے چلتے تھے تاکہ کفار کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دیں ۔ اور ایک قرات میں مردفین فتح دال کے ساتھ ہے یعنی ہر ایک مسلمان فوجی کے پیچھے اس کی مدد کے لئے ایک فرشتہ متعین تھا ۔ ایک اور قرآت میں مردفین بتشدید دال ہے جو دراصل مردفین باب افتعال سے ہے ۔ صرفی قاعدہ کے مطابق تاء کو دال میں ادغام کر کے اس کی حرکت دال کو دے دی گئی ہے ۔ سورة آل عمران میں ہے : أَلَنْ يَكْفِيَكُمْ أَنْ يُمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلاثَةِ آلافٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُنْزَلِينَ بَلى إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُمْ مِنْ فَوْرِهِمْ هذا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُسَوِّمِينَ. کیا تم کو اتنا کافی نہیں کہ تمہارا رب ( آسمان سے ) تین ہزار فرشتے بھیج کر تمہاری مدد فرمائے ( ضرور کافی ہے ) بلکہ اگر تم ثابت قدم رہو ( اور خدا اور رسول کی نافرمانی سے ) بچو اور دشمن ( ابھی ) اسی دم تم پر چڑھ آئیں تم تمہارا رب پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا جو بڑی سج دھج سے آموجود ہوں گے ۔ وأَرْدَفْتُهُ : میں نے اسے اپنے پیچھے سوار کیا ۔ والرِّدَافُ : سواری پر ردلف کے بیٹھنے کی جگہ ۔ ودابّة لا تُرَادَفُ ولا تُرْدَفُ : سواری جو ردیف کو سوار نہ ہونے دے ۔ وجاء واحد فأردفه آخر : ایک کے بعد دوسرا آیا ۔ وأَرْدَافُ الملوکِ : بادشاہوں کے جانشین ، نائب ۔ عجل العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2» . قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] ، ( ع ج ل ) العجلۃ کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔
Top