Mufradat-ul-Quran - Al-Qasas : 20
وَ جَآءَ رَجُلٌ مِّنْ اَقْصَا الْمَدِیْنَةِ یَسْعٰى١٘ قَالَ یٰمُوْسٰۤى اِنَّ الْمَلَاَ یَاْتَمِرُوْنَ بِكَ لِیَقْتُلُوْكَ فَاخْرُجْ اِنِّیْ لَكَ مِنَ النّٰصِحِیْنَ
وَجَآءَ : اور آیا رَجُلٌ : ایک آدمی مِّنْ : سے اَقْصَا الْمَدِيْنَةِ : شہر کا پرلا سرا يَسْعٰى : دوڑتا ہوا قَالَ : اس نے کہا يٰمُوْسٰٓى : اے موسیٰ اِنَّ : بیشک الْمَلَاَ : سردار يَاْتَمِرُوْنَ : وہ مشورہ کر رہے ہیں بِكَ : تیرے بارے میں لِيَقْتُلُوْكَ : تاکہ قتل کر ڈالیں تجھے فَاخْرُجْ : پس تو نکل جا اِنِّىْ : بیشک میں لَكَ : تیرے لیے مِنَ : سے النّٰصِحِيْنَ : خیر خواہ (جمع)
اور ایک شخص شہر کی پرلی طرف سے دوڑتا ہوا آیا اور بولا کہ موسیٰ (شہر کے) رئیس تمہارے بارے میں صلاحیں کرتے ہیں کہ تم کو مار ڈالیں سو تم یہاں سے نکل جاؤ میں تمہارا خیر خواہ ہوں
وَجَاۗءَ رَجُلٌ مِّنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَۃِ يَسْعٰى۝ 0ۡقَالَ يٰمُوْسٰٓى اِنَّ الْمَلَاَ يَاْتَمِرُوْنَ بِكَ لِيَقْتُلُوْكَ فَاخْرُجْ اِنِّىْ لَكَ مِنَ النّٰصِحِيْنَ۝ 20 جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ قصی القَصَى: البعد، والْقَصِيُّ : البعید . يقال : قَصَوْتُ عنه، وأَقْصَيْتُ : أبعدت، والمکان الأَقْصَى، والناحية الْقَصْوَى، ومنه قوله : وَجاءَ رَجُلٌ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ يَسْعى [ القصص/ 20] ، وقوله : إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى [ الإسراء/ 1] يعني : بيت المقدس، فسمّاه الْأَقْصَى اعتبارا بمکان المخاطبین به من النبيّ وأصحابه، وقال : إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال/ 42] . وقَصَوْتُ البعیر : قطعت أذنه، وناقة قَصْوَاءُ ، وحکوا أنه يقال : بعیر أَقْصَى، والْقَصِيَّةُ من الإبلِ : البعیدةُ عن الاستعمال . ( ق ص و ) القصی کے معنی بعد یعنی دوری کے ہیں اور قصی بعید کو کہا جاتا ہے محاورہ ہے : ۔ قصؤت عنہ میں اس سے دور ہوا اقصیہ میں نے اسے دور کردیا ۔ المکان الاقصی دور دراز جگہ الناحیۃ القصویٰ دور یا کنارہ اسی سے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَجاءَ رَجُلٌ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ يَسْعى [ القصص/اور ایک شخص شہر کی پر لی طرف سے دوڑتا ہوا آیا ۔ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى [ الإسراء/ 1] مسجد اقصی ٰ یعنی بیت المقدس تک ۔ میں المسجد الاقصیٰ سے مراد بیت المقدس ہے اور اسے الاقصیٰ مخاطبین یعنی آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام کے مقام سکونت کے اعتبار سے کہا ہے ۔ کیونکہ وہ مدینہ سے دور تھی ۔ إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال/ 42] جس وقت تم ( مدینے سے ) قریب ناکے پر تھے اور کافر بعید کے نا کے پر ۔ قصؤت البعیر کے معنی اونٹ کا کان قطع کرنے کے ہیں اور کان کٹی اونٹنی کو ناقۃ قصراء کہا جاتا ہے اور اس معنی میں بعیر اقصیٰ کا محاورہ بھی منقول ہے قصیۃ اس اونٹنی کو کہا جاتا ہے جو کام کاج سے دور رکھی گئی ہو ( اصیل اونٹنی ) سعی السَّعْيُ : المشي السّريع، وهو دون العدو، ويستعمل للجدّ في الأمر، خيرا کان أو شرّا، قال تعالی: وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة/ 114] ، وقال : نُورُهُمْ يَسْعى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ [ التحریم/ 8] ، وقال : وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً [ المائدة/ 64] ، وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ [ البقرة/ 205] ، وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى [ النجم/ 39- 40] ، إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى [ اللیل/ 4] ، وقال تعالی: وَسَعى لَها سَعْيَها [ الإسراء/ 19] ، كانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُوراً [ الإسراء/ 19] ، وقال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] . وأكثر ما يستعمل السَّعْيُ في الأفعال المحمودة، قال الشاعر : 234- إن أجز علقمة بن سعد سعيه ... لا أجزه ببلاء يوم واحد «3» وقال تعالی: فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ [ الصافات/ 102] ، أي : أدرک ما سعی في طلبه، وخصّ المشي فيما بين الصّفا والمروة بالسعي، وخصّت السّعاية بالنمیمة، وبأخذ الصّدقة، وبکسب المکاتب لعتق رقبته، والمساعاة بالفجور، والمسعاة بطلب المکرمة، قال تعالی: وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ سبأ/ 5] ، أي : اجتهدوا في أن يظهروا لنا عجزا فيما أنزلناه من الآیات . ( س ع ی ) السعی تیز چلنے کو کہتے ہیں اور یہ عدو ( سرپٹ دوڑ ) سے کم درجہ ( کی رفتار ) ہے ( مجازا ) کسی اچھے یا برے کام کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة/ 114] اور ان کی ویرانی میں ساعی ہو ۔ نُورُهُمْ يَسْعى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ [ التحریم/ 8]( بلکہ ) ان کا نور ( ایمان ) ان کے آگے ۔۔۔۔۔۔ چل رہا ہوگا ۔ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً [ المائدة/ 64] اور ملک میں فساد کرنے کو ڈوڑتے بھریں ۔ وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ [ البقرة/ 205] اور جب پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے تو زمین میں ( فتنہ انگریزی کرنے کے لئے ) دوڑتا پھرتا ہے ۔ وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى [ النجم/ 39- 40] اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی ۔ إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى [ اللیل/ 4] تم لوگوں کی کوشش طرح طرح کی ہے ۔ وَسَعى لَها سَعْيَها [ الإسراء/ 19] اور اس میں اتنی کوشش کرے جتنی اسے لائق ہے اور وہ مومن بھی ہو تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش ٹھکانے لگتی ہے ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] تو اس کی کوشش رائگاں نی جائے گی لیکن اکثر طور پر سعی کا لفظ افعال محمود میں استعمال ہوتا ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) 228 ) ان جز علقمہ بن سیف سعیہ لا اجزہ ببلاء یوم واحد اگر میں علقمہ بن سیف کو اس کی مساعی کا بدلہ دوں تو ایک دن کے حسن کردار کا بدلہ نہیں دے سکتا اور قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ [ الصافات/ 102] جب ان کے ساتھ دوڑ نے کی عمر کو پہنچا ۔ یعنی اس عمر کو پہنچ گیا کہ کام کاج میں باپ کا ہاتھ بٹا سکے اور مناسب حج میں سعی کا لفظ صفا اور مردہ کے درمیان چلنے کے لئے مخصوص ہوچکا ہے اور سعاد یۃ کے معنی خاص کر چغلی کھانے اور صد قہ وصول کرنے کے آتے ہیں اور مکاتب غلام کے اپنے آپ کو آزاد کردانے کے لئے مال کمائے پر بھی سعایۃ کا لفظ بولا جاتا ہے مسا عا ۃ کا لفظ فسق و محور اور مسعادۃ کا لفظ اچھے کاموں کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ سبأ/ 5] اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں میں اپنے زعم باطل میں ہمیں عاجز کرنے کے لئے سعی کی میں سعی کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے ہماری نازل کر آیات میں ہامرے عجز کو ظاہر کرنے کے لئے پوری طاقت صرف کر دالی ۔ موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . ملأ المَلَأُ : جماعة يجتمعون علی رأي، فيملئون العیون رواء ومنظرا، والنّفوس بهاء وجلالا . قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة/ 246] ، ( م ل ء ) الملاء ۔ وی جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہو تو مظروں کو ظاہری حسن و جمال اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھردے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة/ 246] نھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ نصح النُّصْحُ : تَحَرِّي فِعْلٍ أو قَوْلٍ فيه صلاحُ صاحبِهِ. قال تعالی: لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلكِنْ لا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف/ 79] ( ن ص ح ) النصح کسی ایسے قول یا فعل کا قصد کرنے کو کہتے ہیں جس میں دوسرے کی خیر خواہی ہو قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلكِنْ لا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف/ 79] میں نے تم کو خدا کا پیغام سنادیا ۔ اور تمہاری خیر خواہی کی مگر تم ایسے ہو کہ خیر خواہوں کو دوست ہی نہیں رکھتے ۔
Top