Mufradat-ul-Quran - Al-Qasas : 34
وَ اَخِیْ هٰرُوْنُ هُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا فَاَرْسِلْهُ مَعِیَ رِدْاً یُّصَدِّقُنِیْۤ١٘ اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یُّكَذِّبُوْنِ
وَاَخِيْ : اور میرا بھائی هٰرُوْنُ : ہارون هُوَ : وہ اَفْصَحُ : زیادہ فصیح مِنِّيْ : مجھ سے لِسَانًا : زبان فَاَرْسِلْهُ : سو بھیجدے اسے مَعِيَ : میرے ساتھ رِدْاً : مددگار يُّصَدِّقُنِيْٓ : اور تصدیق کرے میری اِنِّىْٓ اَخَافُ : بیشک میں ڈرتا ہوں اَنْ : کہ يُّكَذِّبُوْنِ : وہ جھٹلائیں گے مجھے
اور ہارون (جو) میرا بھائی (ہے) اس کی زبان مجھ سے زیادہ فصیح ہے تو اس کو میرے ساتھ مددگار بنا کر بھیج کہ میری تصدیق کرے مجھے خوف ہے کہ وہ لوگ میری تکذیب کریں گے
وَاَخِيْ ہٰرُوْنُ ہُوَاَفْصَحُ مِنِّيْ لِسَانًا فَاَرْسِلْہُ مَعِيَ رِدْاً يُّصَدِّقُنِيْٓ۝ 0ۡاِنِّىْٓ اَخَافُ اَنْ يُّكَذِّبُوْنِ۝ 34 أخ أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران/ 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف/ 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 85] ، ( اخ و ) اخ ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ } ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔{ أَخَا عَادٍ } ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ { وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا } ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ { وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ } ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ { وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا } ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔ هرن هَارُونُ اسم أعجميّ ، ولم يرد في شيء من کلام العرب . فصح [ الفَصْحُ : خلوص الشیء مما يشوبه . وأصله في اللّبن، يقال : فَصَّحَ اللّبن وأَفْصَحَ «4» ، فهو مُفْصِحٌ وفَصِيحٌ: إذا تعرّى من الرّغوة، وقد رویوتحت الرّغوة اللّبن الفصیح «5» ومنه استعیر : فَصُحَ الرّجل : جادت لغته، وأَفْصَحَ : تكلّم بالعربيّة، وقیل بالعکس، والأوّل أصحّ ] «6» . وقیل : الفَصِيحُ : الذي ينطق، والأعجميّ : الذي لا ينطق، قال : وَأَخِي هارُونُ هُوَ أَفْصَحُ مِنِّي لِساناً [ القصص/ 34] ، وعن هذا استعیر : أَفْصَحَ الصّبحُ : إذا بدا ضوؤه، وأَفْصَحَ النصاری: جاء فِصْحُهُمْ ، أي : عيدهم . (ص ح ) الفصح کے معنی کسی چیز کے ہر قسم کی امیزش سے پاک ہونے کے ہیں اصل میں اس کا استعمال دودھ خالص ہونے پر ہوتا ہے چناچہ محاورہ ہے ؛فصح اللبن وافصح کے معنی دودھ کے اوپر سے جھاگ اتار کے اسے بالکل صاف کرلینے کے ہیں اور جس دودھ کے اوپر جھاگ اتار کر اسے بالکل صاف کرلیا جائے اے مفصح یا فصیح کہاجاتا ہے ۔ چناچہ مروی ہے ( الوافر ) (340) وتحت الرغوۃ اللبن الفصح جھاگ کے نیچے خالص دودھ ہوتا ہے ۔ اور اسی سے فصح الرجل کا محاورہ مستعار ہے جس کے معنی کسی شخص کے خوش گفتارہونے کے ہیں اور افصح کے معنی خالص عربی زبان میں گفتگو کرنے کے ہیں اور بعض نے اس کے برعکس کہا ہے لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے بعض نے کہا ہے کہ فصیح ناطق ( یعنی انسان وغیرہ فرشتے وغیرہ ) کو کہتے ہیں اور اعجمی کے معنی غیر ناطق ( یعنی جو پایہ وغیرہ ) کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : وَأَخِي هارُونُ هُوَ أَفْصَحُ مِنِّي لِساناً [ القصص/ 34] اور ہارون جو میرا بھائی ہے اس کی زبان مجھ سے زیادہ فصیح ہے ۔ اسی سے افصح الصبح کا محاورہ مستعارہ ہے جس کے معنی صبح کے روشنی اور نمودار ہونے کے ہیں اور افصح النصاریٰ کے معنی عیسائیوں کے ایسڑ کی عید ( یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دوبارہ زندہونے کا تہوار منانے کے ہیں ۔ لسن اللِّسَانُ : الجارحة وقوّتها، وقوله : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه/ 27] يعني به من قوّة لسانه، فإنّ العقدة لم تکن في الجارحة، وإنما کانت في قوّته التي هي النّطق به، ويقال : لكلّ قوم لِسَانٌ ولِسِنٌ بکسر اللام، أي : لغة . قال تعالی: فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان/ 58] ، وقال : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] ، وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] فاختلاف الْأَلْسِنَةِ إشارة إلى اختلاف اللّغات، وإلى اختلاف النّغمات، فإنّ لكلّ إنسان نغمة مخصوصة يميّزها السّمع، كما أنّ له صورة مخصوصة يميّزها البصر . ( ل س ن ) اللسان ۔ زبان اور قوت گویائی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه/ 27] اور میری زبان کی گرہ گھول دے ۔ یہاں لسان کے معنی قلت قوت گویائی کے ہیں کیونکہ وہ بندش ان کی زبان پر نہیں تھی بلکہ قوت گویائی سے عقدہ کشائی کا سوال تھا ۔ محاورہ ہے : یعنی ہر قوم را لغت دلہجہ جدا است ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان/ 58]( اے پیغمبر ) ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ۔ بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] فصیح عربی زبان میں ۔ اور آیت کریمہ : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] اور تمہاری زبانوں اور نگوں کا اختلاف ۔ میں السنہ سے اصوات اور لہجوں کا اختلاف مراد ہے ۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح دیکھنے میں ایک شخص کی صورت دوسرے سے نہیں ملتی اسی طرح قوت سامعہ ایک لہجہ کو دوسرے سے الگ کرلیتی ہے ۔ رسل ( ارسال) والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، وقد يكون ذلک بالتّسخیر، كإرسال الریح، والمطر، نحو : وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] ، وقد يكون ببعث من له اختیار، نحو إِرْسَالِ الرّسل، قال تعالی: وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] ، فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] ، وقد يكون ذلک بالتّخلية، وترک المنع، نحو قوله : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83] ، والْإِرْسَالُ يقابل الإمساک . قال تعالی: ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] ( ر س ل ) الرسل الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ کبھی ( 1) یہ تسخیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے ہوا بارش وغیرہ کا بھیجنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] اور ( اوپر سے ) ان پر موسلادھار مینہ برسایا ۔ اور کبھی ( 2) کسی بااختیار وار وہ شخص کے بھیجنے پر بولا جاتا ہے جیسے پیغمبر بھیجنا چناچہ قرآن میں ہے : وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] اور تم لوگوں پر نگہبان ( فرشتے ) تعنیات رکھتا ہے ۔ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] اس پر فرعون نے ( لوگوں کی بھیڑ ) جمع کرنے کے لئے شہروں میں ہر کارے دوڑائے ۔ اور کبھی ( 3) یہ لفظ کسی کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑے دینے اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے پر بولاجاتا ہے ہے جیسے فرمایا : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83]( اے پیغمبر ) کیا تم نے ( اس باٹ پر ) غور نہیں کیا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں انگینت کر کے اکساتے رہتے ہیں ۔ اور کبھی ( 4) یہ لفظ امساک ( روکنا ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] تو اللہ جو اپنی رحمت دے لنگر لوگوں کے لئے ) کھول دے تو کوئی اس کا بند کرنے والا نہیں اور بندے کرے تو اس کے ( بند کئے ) پیچھے کوئی اس کا جاری کرنے والا نہیں ۔ ردأ الرِّدْءُ : الذي يتبع غيره معینا له . قال تعالی: فَأَرْسِلْهُ مَعِي رِدْءاً يُصَدِّقُنِي[ القصص/ 34] ، وقد أَرْدَأَهُ ، والرَّدِيءُ في الأصل مثله، لکن تعورف في المتأخّر المذموم . يقال : رَدُأَ «1» الشیء رَدَاءَةً ، فهو رَدِيءٌ ، ( ر د ء ) الردء ۔ جو دوسرے کا مددگار بن کر اس کے تابع ہو ۔ قرآن میں ہے : فَأَرْسِلْهُ مَعِي رِدْءاً يُصَدِّقُنِي[ القصص/ 34] ان کو مددگار بنا کر میرے ساتھ بھیج دو کہ میری تصدیق کریں ۔ اور اردئہ کے معنی کسی کی مدد کرنا کے ہیں اور ردیء ( ردی ) بھی اصل میں ردء کے ہم معنی ہے مگر عرف میں متاخر مذموم پر بولا جاتا ہے ۔ کہاجاتا ہے ردء الشیئ رداءۃ فھو ردیء ۔ کسی شے کا ردی ہونا ۔ صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے
Top