Mufradat-ul-Quran - Al-Qasas : 61
اَفَمَنْ وَّعَدْنٰهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِیْهِ كَمَنْ مَّتَّعْنٰهُ مَتَاعَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ثُمَّ هُوَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ
اَفَمَنْ : سو کیا جو وَّعَدْنٰهُ : ہم نے وعدہ کیا اس سے وَعْدًا حَسَنًا : وعدہ اچھا فَهُوَ : پھر وہ لَاقِيْهِ : پانے والا اس کو كَمَنْ : اس کی طرح جسے مَّتَّعْنٰهُ : ہم نے بہرہ مند کیا اسے مَتَاعَ : سامان الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی ثُمَّ : پھر هُوَ : وہ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت مِنَ : سے الْمُحْضَرِيْنَ : حاضر کیے جانے والے
بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا اور اس نے اسے حاصل کرلیا تو کیا وہ اس شخص کا سا ہے جس کو ہم نے دنیا کی زندگی کے فائدے سے بہرہ مند کیا ؟ پھر وہ قیامت کے روز ان لوگوں میں ہو جو (ہمارے روبرو) حاضر کئے جائیں گے
اَفَمَنْ وَّعَدْنٰہُ وَعْدًا حَسَـنًا فَہُوَ لَاقِيْہِ كَمَنْ مَّتَّعْنٰہُ مَتَاعَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا ثُمَّ ہُوَيَوْمَ الْقِيٰمَۃِ مِنَ الْمُحْضَرِيْنَ۝ 61 وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ حسن الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب : مستحسن من جهة العقل . ومستحسن من جهة الهوى. ومستحسن من جهة الحسّ. والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ( ح س ن ) الحسن ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ لقی اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] ( ل ق ی ) لقیہ ( س) یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔ قِيامَةُ والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] ، القیامتہ سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔ حضر الحَضَر : خلاف البدو، والحَضَارة والحِضَارَة : السکون بالحضر، کالبداوة والبداوة، ثمّ جعل ذلک اسما لشهادة مکان أو إنسان أو غيره، فقال تعالی: كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة/ 180] ، نحو : حَتَّى إِذا جاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ الأنعام/ 61] ، وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء/ 8] ، وقال تعالی: وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] ، عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير/ 14] ، وقال : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون/ 98] ، وذلک من باب الکناية، أي : أن يحضرني الجن، وكني عن المجنون بالمحتضر وعمّن حضره الموت بذلک، وذلک لما نبّه عليه قوله عزّ وجل : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] ، وقوله تعالی: يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آياتِ رَبِّكَ [ الأنعام/ 158] ، وقال تعالی: ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران/ 30] ، أي : مشاهدا معاینا في حکم الحاضر عنده، وقوله عزّ وجلّ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف/ 163] ، أي : قربه، وقوله : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة/ 282] ، أي : نقدا، وقوله تعالی: وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس/ 32] ، وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ/ 38] ، شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ، أي : يحضره أصحابه، والحُضْر : خصّ بما يحضر به الفرس إذا طلب جريه، يقال : أَحْضَرَ الفرس، واستحضرته : طلبت ما عنده من الحضر، وحاضرته مُحَاضَرَة وحِضَارا : إذا حاججته، من الحضور، كأنه يحضر کلّ واحد حجّته، أو من الحضر کقولک : جاریته، والحضیرة : جماعة من الناس يحضر بهم الغزو، وعبّر به عن حضور الماء، والمَحْضَر يكون مصدر حضرت، وموضع الحضور . ( ح ض ر ) الحضر یہ البدو کی ضد ہے اور الحضارۃ حاد کو فتحہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ آتا ہے جیسا کہ بداوۃ وبداوۃ اس کے اصل شہر میں اقامت کے ہیں ۔ پھر کسی جگہ پر یا انسان وگیرہ کے پاس موجود ہونے پر حضارۃ کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة/ 180] تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے ۔ وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء/ 8] اور جب تم میراث کی تقسیم کے وقت ۔۔۔ آمو جود ہوں ۔ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] اور طبائع میں بخل ودیعت کردیا گیا ہے ۔ عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير/ 14] تب ہر شخص معلوم کرلے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے اور آیت کریمہ : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون/ 98] میں کنایہ کہ اے پروردگار میں پناہ مانگتا ہوں کہ جن و شیاطین میرے پاس آھاضر ہوں ۔ اور بطور کنایہ مجنون اور قریب المرگ شخص کو محتضر کہا جاتا ہے جیسا کہ آیت : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] اور آیت کریمہ : یوم یاتی بعض ایات ربک میں اس معنی پر متنبہ کیا گیا ہے اور آیت کریمہ ۔ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران/ 30] کے معنی یہ ہیں کہ انسان جو نیکی بھی کرے گا ۔ قیامت کے دن اس کا اس طرح مشاہدہ اور معاینہ کرلے گا جیسا کہ کوئی شخص سامنے آموجود ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف/ 163] اور ان سے اس گاؤں کا حال پوچھ جواب دریا پر واقع تھا ۔ میں حاضرۃ البحر کے معنی دریا کے قریب یعنی ساحل کے ہیں اور آیت کریمہ : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة/ 282] میں حاضرۃ کے معنی نقد کے ہیں ۔ نیز فرمایا : وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس/ 32] اور سب کے سب ہمارے روبرو حاضر کئے جائیں گے ۔ وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ/ 38] وی عذاب میں ڈالے جائیں گے ۔ اور آیت کریمہ : شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ، ہر باری والے کو اپنی باری پر آنا چاہئے میں بانی کی باری کے محتضر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ باڑی والے اس گھاٹ پر موجود ہوں ۔ الحضر ۔ خاص کر گھوڑے کی تیز دوڑے کو کہتے ہیں کہا جاتا ہے : احضر الفرس گھوڑا دوڑا استحضرتُ الفرس میں نے گھوڑے کو سرپٹ دوڑایا ۔ حاضرتہ محاضرۃ وحضارا باہم جھگڑنا ۔ مباحثہ کرنا ۔ یہ یا تو حضور سے ہے گویا ہر فریق اپنی دلیل حاضر کرتا ہے اور یا حضر سے ہے جس کے معنی تیز دوڑ کے ہوتے ہیں جیسا کہ ۔۔۔۔۔۔ جاریتہ کہا جاتا ہے ۔ الحضیرۃ ُ لوگوں کی جماعت جو جنگ میں حاضر کی جائے اور کبھی اس سے پانی پر حاضر ہونے والے لوگ بھی مراہ لئے جاتے ہیں ۔ المحضرُ ( اسم مکان ) حاضر ہونے کی جگہ اور حضرت ُ ( فعل ) کا مصدر بھی بن سکتا ہے ۔
Top