Mufradat-ul-Quran - Al-Qasas : 85
اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ١ؕ قُلْ رَّبِّیْۤ اَعْلَمُ مَنْ جَآءَ بِالْهُدٰى وَ مَنْ هُوَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْ : وہ (اللہ) جس نے فَرَضَ : لازم کیا عَلَيْكَ : تم پر الْقُرْاٰنَ : قرآن لَرَآدُّكَ : ضرور پھیر لائے گا تمہیں اِلٰى مَعَادٍ : لوٹنے کی جگہ قُلْ : فرما دیں رَّبِّيْٓ : میرا رب اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے مَنْ : کون جَآءَ : آیا بِالْهُدٰى : ہدایت کے ساتھ وَمَنْ هُوَ : اور وہ کون فِيْ : میں ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ : کھلی گمراہی
(اے پیغمبر) جس (خدا) نے تم پر قرآن (کے احکام) کو فرض کیا ہے وہ تمہیں باز گشت کی جگہ لوٹا دے گا کہہ دو کہ میرا پروردگار اس شخص کو بھی خوب جانتا ہے جو ہدایت لے کر آیا اور (اسکو بھی) جو صریح گمراہی میں ہے
اِنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَاۗدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ۝ 0ۭ قُلْ رَّبِّيْٓ اَعْلَمُ مَنْ جَاۗءَ بِالْہُدٰى وَمَنْ ہُوَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۝ 85 فرض الفَرْضُ : قطع الشیء الصّلب والتأثير فيه، کفرض الحدید، وفرض الزّند والقوس، والمِفْرَاضُ والمِفْرَضُ : ما يقطع به الحدید، وفُرْضَةُ الماء : مقسمه . قال تعالی: لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبادِكَ نَصِيباً مَفْرُوضاً [ النساء/ 118] ، أي : معلوما، وقیل : مقطوعا عنهم، والفَرْضُ كالإيجاب لکن الإيجاب يقال اعتبارا بوقوعه وثباته، والفرض بقطع الحکم فيه «3» . قال تعالی: سُورَةٌ أَنْزَلْناها وَفَرَضْناها[ النور/ 1] ، أي : أوجبنا العمل بها عليك، وقال : إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ [ القصص/ 85] ، أي : أوجب عليك العمل به، ومنه يقال لما ألزم الحاکم من النّفقة : فَرْضٌ. وكلّ موضع ورد ( فرض اللہ عليه) ففي الإيجاب الذي أدخله اللہ فيه، وما ورد من : ( فرض اللہ له) فهو في أن لا يحظره علی نفسه . نحو . ما کان عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيما فَرَضَ اللَّهُ لَهُ [ الأحزاب/ 38] ، وقوله : قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمانِكُمْ [ التحریم/ 2] ، وقوله : وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً [ البقرة/ 237] ، أي : سمّيتم لهنّ مهرا، وأوجبتم علی أنفسکم بذلک، وعلی هذا يقال : فَرَضَ له في العطاء، وبهذا النّظر ومن هذا الغرض قيل للعطية : فَرْضٌ ، وللدّين : فَرْضٌ ، وفَرَائِضُ اللہ تعالی: ما فرض لأربابها، ورجل فَارِضٌ وفَرْضِيٌّ: بصیر بحکم الفرائض . قال تعالی: فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَ إلى قوله : فِي الْحَجِّ «4» أي : من عيّن علی نفسه إقامة الحجّ «5» ، وإضافة فرض الحجّ إلى الإنسان دلالة أنه هو معيّن الوقت، ويقال لما أخذ في الصّدقة فرِيضَةٌ. قال : إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ إلى قوله : فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ «1» وعلی هذا ما روي (أنّ أبا بکر الصّدّيق رضي اللہ عنه كتب إلى بعض عمّاله کتابا وکتب فيه : هذه فریضة الصّدقة التي فرضها رسول اللہ صلّى اللہ عليه وسلم علی المسلمین) . والفَارِضُ : المسنّ من البقر «3» . قال تعالی: لا فارِضٌ وَلا بِكْرٌ [ البقرة/ 68] ، وقیل : إنما سمّي فَارِضاً لکونه فارضا للأرض، أي : قاطعا، أو فارضا لما يحمّل من الأعمال الشاقّة، وقیل : بل لأنّ فَرِيضَةُ البقر اثنان : تبیع ومسنّة، فالتّبيع يجوز في حال دون حال، والمسنّة يصحّ بذلها في كلّ حال، فسمّيت المسنّة فَارِضَةً لذلک، فعلی هذا يكون الفَارِضُ اسما إسلاميّا . (ر ض ) الفرض ( ض ) کے معنی سخت چیز کو کاٹنے اور اس میں نشان ڈالنے کے ہیں مثلا فرض الحدید لوہے کو کاٹنا فرض القوس کمان کا چلہ فرض الزند چقماق کا ٹکڑا اور فر ضۃ الماء کے معنی در یا کا دہانہ کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبادِكَ نَصِيباً مَفْرُوضاً [ النساء/ 118] میں تیرے بندوں سے ( غیر خدا کی نذر ( لو ا کر مال کا یاک مقرر حصہ لے لیا کروں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں مفروض کے معنی معین کے ہیں اور بعض نے کاٹ کر الگ کیا ہوا مراد لیا ہے ۔ اور فرض بمعنی ایجاب ( واجب کرنا ) آتا ہے مگر واجب کے معنی کسی چیز کے لحاظ وقوع اور ثبات کے قطعی ہونے کے ہیں اور فرض کے معنی بلحاظ حکم کے قطعی ہونے کے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سُورَةٌ أَنْزَلْناها وَفَرَضْناها[ النور/ 1] یہ ایک سورة ہے جس کو ہم نے نازل کیا اور اس ( کے احکام ) کو فرض کردیا ۔ یعنی اس پر عمل کرنا فرض کردیا ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ [ القصص/ 85] ( اے پیغمبر ) جس نے تم پر قرآن ( کے احکام ) کو فرض کیا ہے ۔۔۔۔ یعنی اس پر عمل کرنا تجھ پر واجب کیا ہے اور اسی سے جو نفقہ وغیرہ حاکم کسی کے لئے مقرر کردیتا ہے اسے بھی فرض کہا جاتا ہے اور ہر وہ مقام جہاں قرآن میں فرض علٰی ( علی ) کے ساتھ ) آیا ہے ۔ اس کے معنی کسی چیز کے واجب اور ضروری قرا ردینے کے ہیں اور جہاں ۔ فرض اللہ لہ لام کے ساتھ ) آیا ہے تو اس کے معنی کسی چیز سے بندش کود ور کرنے اور اسے مباح کردینے کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما کان عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيما فَرَضَ اللَّهُ لَهُ [ الأحزاب/ 38] پیغمبر پر اس کام میں کچھ تنگی نہیں جو خدا نے ان کے لئے مقرر کردیا ۔ قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمانِكُمْ [ التحریم/ 2] خدا نے تم لوگوں کے لئے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کردیا ۔ اور آیت کریمہ : وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً [ البقرة/ 237] لیکن مہر مقررکر چکے ہو ۔ کے معنی یہ ہیں چونکہ تم ان کے لئے مہر مقرر اور اپنے اوپر لازم کرچکے ہو اور یہی معنی فرض لہ فی العطاء کے ہیں ( یعنی کسی کے لئے عطا سے حصہ مقرر کردینا ) اسی بنا پر عطیہ اور قرض کو بھی فرض کہا جاتا ہے اور فرئض اللہ سے مراد وہ احکام ہیں جن کے متعلق قطعی حکم دیا گیا ہے اور جو شخص علم فرائض کا ماہر ہوا سے فارض و فرضی کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَإلى قوله : فِي الْحَجِّ تو جو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کرے تو حج ( کے کو اپنے اوپر لازم کرلیا ہو اور اس کی پختہ نیت کرلی ہو یہاں پر فرض کی نسبت انسان کی طرف کرنے میں اس بات پر دلیل ہے کہ اس کا وقت مقرر کرنا انسان کا کام ہے ( کہ میں امسال حج کرونگا یا آئندہ سال اور زکوۃ میں جو چیز وصول کی جاتی ہے اس پر بھی فریضہ کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ إلى قوله : فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ صدقات ( یعنی زکوۃ نہ خیرات ) تو مفلسوں ۔۔۔۔ کا حق ہے ( یہ ) خدا کی طرف سے مقرر کردیئے گئے ہیں ۔ اسی بنا پر مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے اپنے ایک عامل کیطرف خط لکھا اور اس میں ارقام فرمایا کہ یہ یعنی جو مقادیرلکھی جاری ہی میں فریضہ زکوۃ ہے ۔ جو رسول اللہ نے مسلمانوں پر فرض کیا ہے ۔ الفارض عمر رسیدہ گائے یا بیل ۔ قرآن میں ہے : ۔ لا فارِضٌ وَلا بِكْرٌ [ البقرة/ 68] نہ بوڑھا ہو اور نہ بچھڑا ۔ بعض نے کہا کہ بیل کو فارض اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ زمین کو پھاڑ تا یعنی جو تنا ہے اور یا اس لئے کہ اس پر سختکاموں کا بوجھ ڈالا جاتا ہے اور یا اس لئے کہ گائے کی زکوۃ میں تبیع اور مسنۃ لیا جاتا ہے اور تبیع کا لینا تو بعض حالتوں میں جائز ہوتا ہے اور بعض احوال میں ناجائز لیکن مسنۃ کی ادائیگی ہر حال میں ضروری ہوتی ہے اس لئے مسنۃ کو فارضۃ کہا گیا ہے اس توجیہ کی بناپر فارض کا لفظ مصطلحات اسلامیہ سے ہوگا ۔ قرآن والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء/ 78] أي : قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ( ق ر ء) قرآن القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء/ 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ مَعادُ والمَعادُ يقال للعود وللزّمان الذي يَعُودُ فيه، وقد يكون للمکان الذي يَعُودُ إليه، قال تعالی: إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرادُّكَ إِلى مَعادٍ [ القصص/ 85] ، قيل : أراد به مكّة «3» ، والصحیح ما أشار إليه أمير المؤمنین عليه السلام وذکره ابن عباس أنّ ذلك إشارة إلى الجنّة التي خلقه فيها بالقوّة في ظهر آدم «4» ، وأظهر منه حيث قال : وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ ... الآية [ الأعراف/ 172] . المعاد کے معنی لوٹنے کے ہیں اور لوٹنے کہ جگہ یا زمانہ کو بھی المعاد کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرادُّكَ إِلى مَعادٍ [ القصص/ 85]( اے پیغمبر ) جس خدا ) نے تم پر قرآن ( کے احکام ) کو فرض کیا وہ تمہیں باز گشت کی جگہ لوٹا دیگا ۔ بعض نے کہا ہے کہ معاد سے مکہ مکرمہ مراد ہے مگر اس کے صحیح معنی وہ ہیں جن کی طرف حضرت علی ؓ نے ارشاد فرمایا ہے اور حضرت ابن عباس ؓ نے بھی ذکر کئے ہیں ۔ کہ اس سے جنت مراد ہے ۔ جس میں آنحضرت کو بالقوہ اس وقت پیدا کیا تھا جب کہ آپ ﷺ صلب آدم (علیہ السلام) میں تھے پھر وہاں سے عالم دنیا میں لاکر آنحضرت کو دنیا پر جو اہ گر کیا گیا جیسا کہ آیت : ۔ وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ ... الآية [ الأعراف/ 172] الایۃ میں مذکور ہے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔
Top