Mufradat-ul-Quran - Al-Ankaboot : 26
فَاٰمَنَ لَهٗ لُوْطٌ١ۘ وَ قَالَ اِنِّیْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّیْ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
فَاٰمَنَ : پس ایمان لایا لَهٗ : اس پر لُوْطٌ : لوط وَقَالَ : اور اس نے کہا اِنِّىْ : بیشک میں مُهَاجِرٌ : ہجرت کرنیوالا اِلٰى رَبِّيْ : اپنے رب کی طرف اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہ الْعَزِيْزُ : زبردست غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
پس ان پر (ایک) لوط ایمان لائے اور (ابراہیم) کہنے لگے میں اپنے پروردگار کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں بیشک وہ غالب حکمت والا ہے
فَاٰمَنَ لَہٗ لُوْطٌ۝ 0 ۘ وَقَالَ اِنِّىْ مُہَاجِرٌ اِلٰى رَبِّيْ۝ 0 ۭ اِنَّہٗ ہُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝ 26 لوط لُوطٌ: اسم علم، واشتقاقه من لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، وفي الحدیث : «الولد أَلْوَطُ- أي : ألصق۔ بالکبدوهذا أمر لا يَلْتَاطُ بصفري . أي : لا يلصق بقلبي، ولُطْتُ الحوض بالطّين لَوْطاً : ملطته به، وقولهم : لَوَّطَ فلان : إذا تعاطی فعل قوم لوط، فمن طریق الاشتقاق، فإنّه اشتقّ من لفظ لوط الناهي عن ذلک لا من لفظ المتعاطین له . ( ل و ط ) لوط ( حضرت لوط (علیہ السلام) ) یہ اسم علم ہے لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، سے مشتق ہے جس کے معنی کسی چیز کی محبت دل میں جاگزیں اور پیوست ہوجانے کے ہیں ۔ حدیث میں ہے ۔ (115) الولد الوط بالکید ۔ کہ اولاد سے جگری محبت ہوتی ہے ۔ ھذا امر لایلتا ط بصفری ۔ یہ بات میرے دل کو نہیں بھاتی ۔ لطت الحوض بالطین لوطا ۔ میں نے حوض پر کہگل کی ۔ گارے سے پلستر کیا ۔۔۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے نام سے اشتقاق کرکے تولط فلان کا محاورہ ستعمال ہوتا ہے جس کے معنی خلاف فطرت فعل کرنا ہیں حالانکہ حضرت لوط (علیہ السلام) تو اس فعل سے منع کرتے تھے اور اسے قوم لوط مشتق نہیں کیا گیا جو اس کا ارتکاب کرتے تھے ۔ هجر والمُهاجرَةُ في الأصل : مصارمة الغیر ومتارکته، من قوله عزّ وجلّ : وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال/ 74] ، وقوله : لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر/ 8] ، وقوله : وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء/ 100] ، فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء/ 89] فالظاهر منه الخروج من دار الکفر إلى دار الإيمان کمن هاجر من مكّة إلى المدینة، وقیل : مقتضی ذلك هجران الشّهوات والأخلاق الذّميمة والخطایا وترکها ورفضها، وقوله : إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت/ 26] أي : تارک لقومي وذاهب إليه . ( ھ ج ر ) الھجر المھاجر ۃ کے اصل معنی تو ایک دوسرے سے کٹ جانے اور چھوڑ دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال/ 74] خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور ۃ کفار سے ) جنگ کرتے رہے ۔ اور آیات قرآنیہ : ۔ لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر/ 8] فے کے مال میں محتاج مہاجرین کا ( بھی ) حق ہے ۔ جو کافروں کے ظلم سے اپنے گھر اور مال سے بید خل کردیئے گئے ۔ وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء/ 100] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے ۔ فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء/ 89] تو جب تک یہ لوگ خدا کی راہ میں ( یعنی خدا کے لئے ) ہجرت نہ کر آئیں ان میں سے کسی کو بھی اپنا دوست نہ بنانا ۔ میں مہاجرت کے ظاہر معنی تو دار الکفر سے نکل کر وادلاسلام کی طرف چلے آنے کے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی لیکن بعض نے کہا ہے کہ ہجرت کا حقیقی اقتضاء یہ ہے کہ انسان شہوات نفسانی اخلاق ذمیمہ اور دیگر گناہوں کو کلیۃ تر ک کردے اور آیت : ۔ إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت/ 26] اور ابراہیم نے کہا کہ میں تو دیس چھوڑ کر اپنے پروردگاع کی طرف ( جہاں کہیں اس کو منظور ہوگا نکل جاؤ نگا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی قوم کو خیر باد کہ کر اللہ تعالیٰ کی طرف چلا جاؤں گا ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کمال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ عزیز وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزۃ العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) حكيم والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی: معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ( ح ک م ) الحکمتہ کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لہزا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟
Top