Mufradat-ul-Quran - Al-Ankaboot : 48
وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِیَمِیْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ
وَمَا : اور نہ كُنْتَ تَتْلُوْا : آپ پڑھتے تھے مِنْ قَبْلِهٖ : اس سے قبل مِنْ كِتٰبٍ : کوئی کتاب وَّلَا تَخُطُّهٗ : اور نہ اسے لکھتے تھے بِيَمِيْنِكَ : اپنے دائیں ہاتھ سے اِذًا : اس (صورت) میں لَّارْتَابَ : البتہ شک کرتے الْمُبْطِلُوْنَ : حق ناشناس
اور تم اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اسے اپنے ہاتھ سے لکھ ہی سکتے تھے ایسا ہوتا تو اہل باطل ضرور شک کرتے
وَمَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّلَا تَخُطُّہٗ بِيَمِيْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ۝ 48 خط الخطّ کالمدّ ، ويقال لما له طول، والخطوط أضرب فيما يذكره أهل الهندسة من مسطوح، ومستدیر، ومقوّس، وممال، ويعبّر عن کلّ أرض فيها طول بالخطّ كخطّ الیمن، وإليه ينسب الرّمح الخطّيّ ، وكلّ مکان يَخُطُّهُ الإنسان لنفسه ويحفره يقال له خَطُّ وخِطَّةٌ. والخَطِيطَة : أرض لم يصبها مطر بين أرضین ممطورتین کالخطّ المنحرف عنه، ويعبّر عن الکتابة بالخَطِّ ، قال تعالی: وَما كُنْتَ تَتْلُوا مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتابٍ وَلا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ [ العنکبوت/ 48] . ( خ ط ط ) الخط ( مثل مد ) جس میں طول ہوا ہل ہند سہ کے نزدیک خطوط کئی قسم پر میں ۔ یعنی مسطوح ، مستد پر مقوس اور محال وغیرہ اور ہر مستطیل علاقہ کو خط کہہ دیتے ہیں جیسے خط الیمن جو زمین کے ایک علاقہ کا نام ہے جس کی طرف خطی نیزے منسوب ہیں اور زمین کا وہ حصہ جو انسان اپنے لئے مخصوص کرے اور کھولتے اسے خط اور خطۃ کہا جاتا ہے ۔ الخطیطۃ وہ زمین جس کے ارد گرد بارش ہوئی اور اور وہ درمیان میں خط منحرف کی طرح بےبارش کے رہ گئی ۔ اور الخط کے معنی لکھنا کتابت کرنا بھی ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما كُنْتَ تَتْلُوا مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتابٍ وَلا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ [ العنکبوت/ 48] اور تم اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اسے اپنے ہاتھ سے لکھ ہی سکتے تھے ۔ يمین ( دائیں طرف) اليَمِينُ : أصله الجارحة، واستعماله في وصف اللہ تعالیٰ في قوله : وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر/ 67] علی حدّ استعمال الید فيه، و تخصیص اليَمِينِ في هذا المکان، والأرض بالقبضة حيث قال جلّ ذكره : وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] «1» يختصّ بما بعد هذا الکتاب . وقوله :إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ [ الصافات/ 28] أي : عن الناحية التي کان منها الحقّ ، فتصرفوننا عنها، وقوله : لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة/ 45] أي : منعناه ودفعناه . فعبّر عن ذلک الأخذ باليَمِينِ کقولک : خذ بِيَمِينِ فلانٍ عن تعاطي الهجاء، وقیل : معناه بأشرف جو ارحه وأشرف أحواله، وقوله جلّ ذكره : وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 27] أي : أصحاب السّعادات والمَيَامِنِ ، وذلک علی حسب تعارف الناس في العبارة عن المَيَامِنِ باليَمِينِ ، وعن المشائم بالشّمال . واستعیر اليَمِينُ للتَّيَمُّنِ والسعادة، وعلی ذلک وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 90- 91] ، وعلی هذا حمل : 477- إذا ما راية رفعت لمجد ... تلقّاها عرابة باليَمِين ( ی م ن ) الیمین کے اصل معنی دایاں ہاتھ یا دائیں جانب کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر/ 67] اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لیپٹے ہوں گے ۔ میں حق تعالیٰ کی طرف یمن نسبت مجازی ہے ۔ جیسا کہ ید وغیر ہا کے الفاظ باری تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوتے ہیں یہاں آسمان کے لئے یمین اور بعد میں آیت : ۔ وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] اور قیامت کے دن تمام زمین اس کی مٹھی میں ہوگی ۔ میں ارض کے متعلق قبضۃ کا لفظ لائے میں ایک باریک نکتہ کی طرف اشارہ ہے جو اس کتاب کے بعد بیان ہوگا اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ [ الصافات/ 28] تم ہی ہمارے پاس دائیں اور بائیں ) اسے آتے تھے ۔ میں یمین سے مراد جانب حق ہے یعنی تم جانب حق سے ہمیں پھیرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة/ 45] تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے ۔ میں دایاں ہاتھ پکڑ لینے سے مراد روک دینا ہے جیسے محاورہ ہے : ۔ یعنی فلاں کو ہجو سے روک دو ۔ بعض نے کہا ہے کہ انسان کا دینا ہاتھ چونکہ افضل ہے سمجھاجاتا ہے اسلئے یہ معنی ہو نگے کہ ہم بہتر سے بہتر حال میں بھی اسے با شرف اعضاء سے پکڑ کر منع کردیتے اور آیت کریمہ : ۔ وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 27] اور دہنے ہاتھ والے ۔ میں دہنی سمت والوں سے مراد اہل سعادت ہیں کو ین کہ عرف میں میامن ( با برکت ) ) کو یمین اور مشاے م ( منحوس ) کو شمالی کے لفظ سے یاد کیا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر یمین کا لفظ بر کت وسعادت کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 90- 91] اگر وہ دائیں ہاتھ والوں یعنی اصحاب خیر وبر کت سے ہے تو کہا جائیگا تجھ پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام اور ایس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( 426 ) اذا ما رایۃ رفعت ملجد تلقا ھا عرا بۃ بالیمین جب کبھی فضل ومجد کے کاموں کے لئے جھنڈا بلند کیا جاتا ہے تو عرابۃ اسے خیر و برکت کے ہاتھ سے پکڑ لیتا ہے ارْتِيابُ والارْتِيابُ يجري مجری الْإِرَابَةِ ، قال : أَمِ ارْتابُوا أَمْ يَخافُونَ [ النور/ 50] ، وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ [ الحدید/ 14] ، ونفی من المؤمنین الِارْتِيَابَ فقال : وَلا يَرْتابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ وَالْمُؤْمِنُونَ [ المدثر/ 31] ، وقال : ثُمَّ لَمْ يَرْتابُوا[ الحجرات/ 15] ، وقیل : «دع ما يُرِيبُكَ إلى ما لا يُرِيبُكَ» ورَيْبُ الدّهر صروفه، وإنما قيل رَيْبٌ لما يتوهّم فيه من المکر، والرِّيبَةُ اسم من الرّيب قال : بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ التوبة/ 110] ، أي : تدلّ علی دغل وقلّة يقين . اور ارتیاب ( افتعال ) ارابہ کے ہم معنی ہے جس کے معنی شک و شبہ میں پڑنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛َ أَمِ ارْتابُوا أَمْ يَخافُونَ [ النور/ 50] یا شک میں پڑے ہوئے ہیں ۔ اور اس بات سے ڈرتے ہیں ۔ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ [ الحدید/ 14] اور اس بات کے منتظر رہے ( کہ مسلمانوں پر کوئی آفت نازل ہو ) اور ( اسلام کی طرف سے ) شک میں پڑے رہے ۔ اور مؤمنین سے ارتیاب کی نفی کرتے ہوئے فرمایا ولا يَرْتابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ وَالْمُؤْمِنُونَ [ المدثر/ 31] اور اہل کتاب اور مسلمان ( ان باتوں میں کسی طرح کا ) شک و شبہ نہ لائیں ۔ ثُمَّ لَمْ يَرْتابُوا[ الحجرات/ 15] پھر کسی طرح کا شک وشبہ نہیں کیا ۔ ایک حدیث میں ہے :(161) دع ما یریبک الی ما لا یریبک ۔ کہ شک و شبہ چھوڑ کر وہ کام کرو جس میں شک و شبہ نہ ہو ۔ اور گردش زمانہ کو ریب الدحر اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان میں فریب کاری کا وہم ہوتا ہے ( کما مر ) اور ریبۃ ، ریب سے اسم ہے جس کے معنی شک وشبہ کے ہیں ( جمع ریب ) قرآن میں ہے :۔ بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ التوبة/ 110] کہ وہ عمارت ان کے دلوں میں ریبۃ بنی رہے گی ۔ یعنی ہمیشہ ان کے دلی کھوٹ اور خلجان پر دلالت کرتی رہے گی ۔ بطل البَاطِل : نقیض الحق، وهو ما لا ثبات له عند الفحص عنه، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] ( ب ط ل ) الباطل یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔
Top