Mufradat-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 143
وَ لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَلْقَوْهُ١۪ فَقَدْ رَاَیْتُمُوْهُ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ۠   ۧ
وَلَقَدْ : اور البتہ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ : تم تمنا کرتے تھے الْمَوْتَ : موت مِنْ قَبْلِ : سے قبل اَنْ : کہ تَلْقَوْهُ : تم اس سے ملو فَقَدْ رَاَيْتُمُوْهُ : تو اب تم نے اسے دیکھ لیا وَاَنْتُمْ : اور تم تَنْظُرُوْنَ : دیکھتے ہو
اور تم موت (شہادت) کے آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے سو تم نے اس کو آنکھوں سے دیکھ لیا
وَلَقَدْ كُنْتُمْ تَـمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَلْقَوْہُ۝ 0 ۠ فَقَدْ رَاَيْتُمُوْہُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ۝ 143 ۧ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ تَّمَنِّي : تقدیر شيء في النّفس وتصویره فيها، وذلک قد يكون عن تخمین وظنّ ، ويكون عن رويّة وبناء علی أصل، لکن لمّا کان أكثره عن تخمین صار الکذب له أملك، فأكثر التّمنّي تصوّر ما لا حقیقة له . قال تعالی: أَمْ لِلْإِنْسانِ ما تَمَنَّى [ النجم/ 24] ، فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ [ البقرة/ 94] ، وَلا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَداً [ الجمعة/ 7] والأُمْنِيَّةُ : الصّورة الحاصلة في النّفس من تمنّي الشیء، ولمّا کان الکذب تصوّر ما لا حقیقة له وإيراده باللفظ صار التّمنّي کالمبدإ للکذب، فصحّ أن يعبّر عن الکذب بالتّمنّي، وعلی ذلک ما روي عن عثمان رضي اللہ عنه :( ما تغنّيت ولا تَمَنَّيْتُ منذ أسلمت) «1» ، وقوله تعالی: وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لا يَعْلَمُونَ الْكِتابَ إِلَّا أَمانِيَّ [ البقرة/ 78] قال مجاهد : معناه : إلّا کذبا «2» ، وقال غيره إلّا تلاوة مجرّدة عن المعرفة . من حيث إنّ التّلاوة بلا معرفة المعنی تجري عند صاحبها مجری أمنيّة تمنیتها علی التّخمین، وقوله : وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلَّا إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ [ الحج/ 52] أي : في تلاوته، فقد تقدم أنّ التّمنّي كما يكون عن تخمین وظنّ فقد يكون عن رويّة وبناء علی أصل، ولمّا کان النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم کثيرا ما کان يبادر إلى ما نزل به الرّوح الأمين علی قلبه حتی قيل له : لا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ [ طه/ 114] ، ولا تُحَرِّكْ بِهِ لِسانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ [ القیامة/ 16] سمّى تلاوته علی ذلک تمنّيا، ونبّه أنّ للشیطان تسلّطا علی مثله في أمنيّته، وذلک من حيث بيّن أنّ «العجلة من الشّيطان» «3» . وَمَنَّيْتَني كذا : جعلت لي أُمْنِيَّةً بما شبّهت لي، قال تعالیٰ مخبرا عنه : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء/ 119] . ۔ التمنی کے معنی دل میں کسی خیال کے باندھے اور اس کی تصویرکھنیچ لینے کے ہیں پھر کبھی یہ تقدیر محض ظن وتخمین پر مبنی بر حقیقت مگر عام طور پر تمنی کی بنا چونکہ ظن وتحمین پر ہی ہوتی ہے اس لئے ا س پر جھوٹ کا رنگ غالب ہوتا ہے ۔ کیونکہ اکثر طور پر تمنی کا لفظ دل میں غلط آرزو میں قائم کرلینے پر بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ لِلْإِنْسانِ ما تَمَنَّى [ النجم/ 24] کیا جس چیز کی انسان آرزو کرتا ہے وہ اسے ضرور ملتی ہے ۔ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ [ البقرة/ 94] تو موت کی آرزو تو کرو ۔ وَلا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَداً [ الجمعة/ 7] اور یہ ہر گز نہیں کریں گے ۔ الامنیۃ کسی چیز کی تمنا سے جو صورت ذہن میں حاصل ہوتی ہے اسے امنیۃ کہا جاتا ہے ۔ اور کزب چونکہ کسی وغیرہ واقعی چیز کا تصور کر کے اسے لفظوں میں بیان کردینے کو کہتے ہیں تو گویا تمنی جھوت کا مبدء ہے مہذا جھوٹ کو تمنی سے تعبیر کر نا بھی صحیح ہے اسی معنی میں حضرت عثمان ؓ کا قول ہے ۔ ماتغنیت ولا منذ اسلمت کہ میں جب سے مسلمان ہوا ہوں نہ راگ گایا ہے اور نہ جھوٹ بولا ہے اور امنیۃ کی جمع امانی آتی ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لا يَعْلَمُونَ الْكِتابَ إِلَّا أَمانِيَّ [ البقرة/ 78] اور بعض ان میں ان پڑھ ہیں کہ اپنے خیالات باطل کے سوا ( خدا کی ) کتاب سے واقف نہیں ہیں ۔ مجاہد نے الا امانی کے معنی الا کذبا یعنی جھوٹ کئے ہیں اور دوسروں نے امانی سے بےسوچے سمجھے تلاوت کرنا مراد لیا ہے کیونکہ اس قسم کی تلاوت بھی اس منیۃ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی ہے جس کی بنا تخمینہ پر ہوتی ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلَّا إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ [ الحج/ 52] اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر اس کا یہ حال تھا کہ ) جب وہ کوئی آرزو کرتا تھا تو شیطان اس کی آروزو میں ( وسوسہ ) ڈال دیتا تھا ۔ میں امنیۃ کے معنی تلاوت کے ہیں اور پہلے بیان ہوچکا ہے کہ تمنی ظن وتخمین سے بھی ہوتی ہے ۔ اور مبنی بر حقیقت بھی ۔ اور چونکہ آنحضرت ﷺ کے قلب مبارک پر روح الامین جو وحی لے کر اترتے تھے آپ ﷺ اس کی تلاوت کے لئے مبا ورت کرتے تھے حتیٰ کہ آپ ﷺ کو آیت لا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ [ طه/ 114] اور ولا تُحَرِّكْ بِهِ لِسانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ [ القیامة/ 16] کے ذریعہ منع فرما دیا گیا ۔ الغرض اس وجہ سے آپ کی تلاوت کو تمنی سے موسوم کیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ ایسی تلاوت میں شیطان کا دخل غالب ہوجاتا ہے اسی معنی میں آنحضرت ﷺ نے بھی فرمایا ہے ان العا جلۃ من الشیطان کہ جلد بازی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے منیتی کذا کے معنی فریب وہی سے جھوٹی امید دلانے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن نے شیطان کے قول کی حکایت کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء/ 119] اور ان کو گمراہ کرتا ۔ اور امید دلاتا رہوں گا ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے لقی اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] ( ل ق ی ) لقیہ ( س) یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : منتظرین، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں
Top