Mufradat-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 26
قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ١٘ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ١ؕ بِیَدِكَ الْخَیْرُ١ؕ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
قُلِ : آپ کہیں اللّٰهُمَّ : اے اللہ مٰلِكَ : مالک الْمُلْكِ : ملک تُؤْتِي : تو دے الْمُلْكَ : ملک مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے وَتَنْزِعُ : اور چھین لے الْمُلْكَ : ملک مِمَّنْ : جس سے تَشَآءُ : تو چاہے وَتُعِزُّ : اور عزت دے مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے وَتُذِلُّ : اور ذلیل کردے مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے بِيَدِكَ : تیرے ہاتھ میں الْخَيْرُ : تمام بھلائی اِنَّكَ : بیشک تو عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز قَدِيْرٌ : قادر
اور کہیے کہ اے خدا (اے) بادشاہی کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہی بخش دے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے (اور) بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے
قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ۝ 0 ۡوَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۝ 0 ۭ بِيَدِكَ الْخَيْرُ۝ 0 ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝ 26 «اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا . ملك ( مالک) فالمُلْك ضبط الشیء المتصرّف فيه بالحکم، والمِلْكُ کالجنس للمُلْكِ ، فكلّ مُلْك مِلْك، ولیس کلّ مِلْك مُلْكا . قال : قُلِ اللَّهُمَّ مالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشاءُ [ آل عمران/ 26] ، وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان/ 3] ، وقال : أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف/ 188] وفي غيرها من الآیات ملک کے معنی زیر تصرف چیز پر بذیعہ حکم کنٹرول کرنے کے ہیں اور ملک بمنزلہ جنس کے ہیں لہذا ہر ملک کو ملک تو کہہ سکتے ہیں لیکن ہر ملک ملک نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے : ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان/ 3] اور نہ نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور نہ مر کر اٹھ کھڑے ہونا ۔ اور فرمایا : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] یا تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف/ 188] کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتا علی بذلقیاس بہت سی آیات ہیں إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق ہے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نزع نَزَعَ الشیء : جَذَبَهُ من مقرِّه كنَزْعِ القَوْس عن کبده، ويُستعمَل ذلک في الأعراض، ومنه : نَزْعُ العَداوة والمَحبّة من القلب . قال تعالی: وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف/ 43] . وَانْتَزَعْتُ آيةً من القرآن في كذا، ونَزَعَ فلان کذا، أي : سَلَبَ. قال تعالی: تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ [ آل عمران/ 26] ، وقوله : وَالنَّازِعاتِ غَرْقاً [ النازعات/ 1] قيل : هي الملائكة التي تَنْزِعُ الأرواح عن الأَشْباح، وقوله :إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ [ القمر/ 19] وقوله : تَنْزِعُ النَّاسَ [ القمر/ 20] قيل : تقلع الناس من مقرّهم لشدَّة هبوبها . وقیل : تنزع أرواحهم من أبدانهم، والتَّنَازُعُ والمُنَازَعَةُ : المُجَاذَبَة، ويُعَبَّرُ بهما عن المخاصَمة والمُجادَلة، قال : فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ [ النساء/ 59] ، فَتَنازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ [ طه/ 62] ، والنَّزْعُ عن الشیء : الكَفُّ عنه . والنُّزُوعُ : الاشتیاق الشّديد، وذلک هو المُعَبَّر عنه بإِمحَال النَّفْس مع الحبیب، ونَازَعَتْنِي نفسي إلى كذا، وأَنْزَعَ القومُ : نَزَعَتْ إِبِلُهم إلى مَوَاطِنِهِمْ. أي : حَنَّتْ ، ورجل أَنْزَعُ : زَالَ عنه شَعَرُ رَأْسِهِ كأنه نُزِعَ عنه ففارَقَ ، والنَّزْعَة : المَوْضِعُ من رأسِ الأَنْزَعِ ، ويقال : امرَأَةٌ زَعْرَاء، ولا يقال نَزْعَاء، وبئر نَزُوعٌ: قریبةُ القَعْرِ يُنْزَعُ منها بالید، وشرابٌ طَيِّبُ المَنْزَعَةِ. أي : المقطَع إذا شُرِبَ كما قال تعالی: خِتامُهُ مِسْكٌ [ المطففین/ 26] . ( ن زع ) نزع ( ن زع ) نزع اشئی کے معنی کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچنے کے ہیں ۔ جیسا کہ کمانکو در میان سے کھینچا جاتا ہے اور کبھی یہ لفظ اعراض کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور محبت یا عداوت کے دل سے کھینچ لینے کو بھی نزع کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف/ 43] اور جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ۔ ہم سب نکال ڈالیں گے ۔ آیت کو کسی واقعہ میں بطور مثال کے پیش کرنا ۔ نزع فلان کذا کے معنی کسی چیز کو چھین لینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ [ آل عمران/ 26] اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور آیت کریمہ : ۔ وَالنَّازِعاتِ غَرْقاً [ النازعات/ 1] ان فرشتوں کی قسم جو ڈوب کر کھینچ لیتے ہیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نازعات سے مراد فرشتے ہیں جو روحوں کو جسموں سے کھینچتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ [ القمر/ 19] ہم نے ان پر سخت منحوس دن میں آندھی چلائی وہ لوگوں کو اس طرح اکھیڑ ڈالتی تھی ۔ میں تنزع الناس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہو اپنی تیز کی وجہ سے لوگوں کو ان کے ٹھکانوں سے نکال باہر پھینک دیتی تھی بعض نے کہا ہے کہ لوگوں کی روحوں کو ان کے بد نوں سے کھینچ لینا مراد ہے ۔ التنازع والمنازعۃ : باہم ایک دوسرے کو کھینچا اس سے مخاصمت اور مجا دلہ یعنی باہم جھگڑا کرنا مراد ہوتا ہے ۔ چناچہ ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ [ النساء/ 59] اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو رجوع کرو ۔ فَتَنازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ [ طه/ 62] تو وہ باہم اپنے معاملہ میں جھگڑنے لگے ۔ النزع عن الشئی کے معنی کسی چیز سے رک جانے کے ہیں اور النزوع سخت اشتیاق کو کہتے ہیں ۔ وناز عتنی نفسی الیٰ کذا : نفس کا کسی طرف کھینچ کرلے جانا کس کا اشتیاق غالب آجانا ۔ انزع القوم اونٹوں کا پانے وطن کا مشتاق ہونا رجل انزع کے معنی سر کے بال بھڑ جانا کے ہیں ۔ اور نزعۃ سر کے اس حصہ کو کہتے ہیں جہاں سے بال جھڑ جائیں ۔ اور تانیث کے لئے نزعاء کی بجائے زعراء کا لفظ استعمال ہوتا ہے بئر نزدع کم گہرا کنواں جس سے ہاتھ کے عز العِزَّةُ : حالةٌ مانعة للإنسان من أن يغلب . من قولهم : أرضٌ عَزَازٌ. أي : صُلْبةٌ. قال تعالی: أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء/ 139] ( ع ز ز ) العزۃ اس حالت کو کہتے ہیں جو انسان کو مغلوب ہونے سے محفوظ رکھے یہ ارض عزاز سے ماخوذ ہے جس کے معنی سخت زمین کے ہیں۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء/ 139] کیا یہ ان کے ہاں عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ عزت تو سب خدا ہی کی ہے ۔ ذلت يقال : الذُّلُّ والقُلُّ ، والذِّلَّةُ والقِلَّةُ ، قال تعالی: تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [ المعارج/ 44] ، وقال : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] ، وقال : سَيَنالُهُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَذِلَّةٌ [ الأعراف/ 152] ، وذَلَّتِ الدّابة بعد شماس، ذِلًّا، وهي ذَلُولٌ ، أي : ليست بصعبة، قال تعالی: لا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ [ البقرة/ 71] بغیر تاء کے ذل اور تار کے ساتھ ذلتہ کہا جاتا ہے جیسا کہ قل اور قلتہ ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [ المعارج/ 44] اور ان کے مونہوں پر ذلت چھا جائے گی ۔ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] اور ( آخری کار ) زلت ( اور رسوائی ) اور محتاجی ( اور بےتوانائی ) ان سے چنٹادی گئی ۔ سَيَنالُهُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَذِلَّةٌ [ الأعراف/ 152] پروردگار کا غضب واقع ہوگا اور ذلت ( نصیب ہوگی ) منہ زوزی کے بعد سواری کا مطیع ہوجانا اور اس قسم کی مطیع اور مئقاد سواری کا ذلول ( صفت فاعلی ) کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ [ البقرة/ 71] کہ وہ بیل کام میں لگا ہوا نہ ۔ نہ تو زمین جوتتا ہو ۔ يد الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] ، ( ی د ی ) الید کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ قَدِيرُ : هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة/ 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] . القدیر اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف/ 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔
Top