Mufradat-ul-Quran - Al-Ahzaab : 13
وَ اِذْ قَالَتْ طَّآئِفَةٌ مِّنْهُمْ یٰۤاَهْلَ یَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوْا١ۚ وَ یَسْتَاْذِنُ فَرِیْقٌ مِّنْهُمُ النَّبِیَّ یَقُوْلُوْنَ اِنَّ بُیُوْتَنَا عَوْرَةٌ١ۛؕ وَ مَا هِیَ بِعَوْرَةٍ١ۛۚ اِنْ یُّرِیْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا
وَاِذْ : اور جب قَالَتْ : کہا طَّآئِفَةٌ : ایک گروہ مِّنْهُمْ : ان میں سے يٰٓاَهْلَ يَثْرِبَ : اے یثرت (مدینہ) والو لَا مُقَامَ : کوئی جگہ نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے فَارْجِعُوْا ۚ : لہذا تم لوٹ چلو وَيَسْتَاْذِنُ : اور اجازت مانگتا تھا فَرِيْقٌ : ایک گروہ مِّنْهُمُ : ان میں سے النَّبِيَّ : نبی سے يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے تھے اِنَّ : بیشک بُيُوْتَنَا : ہمارے گھر عَوْرَةٌ ړ : غیر محفوظ وَمَا هِىَ : حالانکہ وہ نہیں بِعَوْرَةٍ ڔ : غیر محفوظ اِنْ يُّرِيْدُوْنَ : وہ نہیں چاہتے اِلَّا : مگر (صرف) فِرَارًا : فرار
اور جب ان میں سے ایک جماعت کہتی تھی کہ اے اہل مدینہ (یہاں) تمہارے لئے (ٹھہرنے کا) مقام نہیں تو لوٹ چلو اور ایک گروہ ان میں سے پیغمبر سے اجازت مانگنے اور کہنے لگا کہ ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں حالانکہ وہ کھلے نہیں تھے وہ تو صرف بھاگنا چاہتے تھے
وَاِذْ قَالَتْ طَّاۗىِٕفَۃٌ مِّنْہُمْ يٰٓاَہْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوْا۝ 0 ۚ وَيَسْتَاْذِنُ فَرِيْقٌ مِّنْہُمُ النَّبِيَّ يَقُوْلُوْنَ اِنَّ بُيُوْتَنَا عَوْرَۃٌ۝ 0 ۭۛ وَمَا ہِىَ بِعَوْرَۃٍ۝ 0 ۚۛ اِنْ يُّرِيْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا۝ 13 طَّائِفَةُ وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی: فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك . الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو ) یثرب مدینہ منورہ کا پہلے یہی نام تھا۔ غیر منصرف ہی بوجہ تانیث و معرفہ یا بوجہ معرفہ ووزن فعل مَقامُ والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] ، ذلِكَ لِمَنْ خافَ مَقامِي وَخافَ وَعِيدِ [إبراهيم/ 14] ، وَلِمَنْ خافَ مَقامَ رَبِّهِ [ الرحمن/ 46] ، وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقامِ إِبْراهِيمَ مُصَلًّى [ البقرة/ 125] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ مَقامُ إِبْراهِيمَ [ آل عمران/ 97] ، وقوله : وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] ، إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ [ الدخان/ 51] ، خَيْرٌ مَقاماً وَأَحْسَنُ نَدِيًّا [ مریم/ 73] ، وقال : وَما مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقامٌ مَعْلُومٌ [ الصافات/ 164] ، وقال : أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقامِكَ [ النمل/ 39] قال الأخفش : في قوله قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقامِكَ [ النمل/ 39] : إنّ المَقَامَ المقعد، فهذا إن أراد أنّ المقام والمقعد بالذّات شيء واحد، وإنما يختلفان بنسبته إلى الفاعل کالصّعود والحدور فصحیح، وإن أراد أنّ معنی المقام معنی المقعد فذلک بعید، فإنه يسمی المکان الواحد مرّة مقاما إذا اعتبر بقیامه، ومقعدا إذا اعتبر بقعوده، وقیل : المَقَامَةُ : الجماعة، قال الشاعر : 379- وفيهم مَقَامَاتٌ حسان وجوههم «1» وإنما ذلک في الحقیقة اسم للمکان وإن جعل اسما لأصحابه . نحو قول الشاعر : 380- واستبّ بعدک يا كليب المجلس «2» فسمّى المستبّين المجلس . المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔ ذلِكَ لِمَنْ خافَ مَقامِي وَخافَ وَعِيدِ [إبراهيم/ 14] اس شخص کے لئے ہے جو قیامت کے روز میرے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے ۔ وَلِمَنْ خافَ مَقامَ رَبِّهِ [ الرحمن/ 46] اور جو شخص اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا ۔ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقامِ إِبْراهِيمَ مُصَلًّى [ البقرة/ 125] کی جگہ بنا لو ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ مَقامُ إِبْراهِيمَ [ آل عمران/ 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک ابراھیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ [ الدخان/ 51] بیشک پرہیزگار لوگ امن کے مقام میں ہوں گے ۔ خَيْرٌ مَقاماً وَأَحْسَنُ نَدِيًّا [ مریم/ 73] مکان کس کے اچھے اور مجلس کس کی بہتر ہیں ۔ وَما مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقامٌ مَعْلُومٌ [ الصافات/ 164] ہم میں سے ہر ایک کا ایک مقرر مقام ہے اور آیت کریمہ : ۔ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقامِكَ [ النمل/ 39] قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں میں اس کو آپ کے پاس حاضر کرتا ہوں ۔ کی تفسیر میں اخفش نے کہا ہے کہ یہاں مقام بمعنی مقعد یعنی نشستگاہ کے ہیں اگر اخفش کا مقصد اس سے یہ ہے کہ مقام اور مقصد بالزات ایک ہی چیز کے دو نام ہیں صرف نسبت ( لی ) الفاعل کے لحاظ سے دونوں میں فرق پایا جاتا ( یعنی ایک ہی جگہ کو کسی شخص کے ہاں اور بیٹھنے کے اعتبار سے مقعد کہا جاتا ہے جس طرح کہ صعود اور حدور کے الفاظ ہیں ( کہ ایک ہی جگہ کو اوپر چڑھنے کے لحاظ سے صعود اور اس سے نیچے اترنے کے لحاظ سے حدود کہا جاتا ہے ) تو بجا ہے اور اگر ان کا مقصد یہ ہے کہ لغت میں مقام بمعنی نے المقامتہ کے معنی جماعت بھی کئے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 322 ) ونیھم مقامات حسان وجوھم اور ان میں خوڈ لوگوں کی جماعتیں ہیں مگر یہ بھی دراصل ظرف مکان ہے اگرچہ ( مجازا ) اصھاب مقام مراد ہیں جس طرح کہ ا ( الکامل ) ( 327 ) واستب بعدک یاکلیب المجلس اے کلیب تیرے بعد لوگ ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگے ہیں ۔ میں مجلس سے اہل مجلس مراد ہیں ۔ رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے استئذان : طلب الإذن، قال تعالی: إِنَّما يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ [ التوبة/ 45] ، فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ [ النور/ 62] . الاستئذن کے معنی اجازت طلب کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ { إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللهِ } ( سورة التوبة 45) اجازت دہی لوگ مانگتے ہیں جو خدا پر اور پچھلے دن پر ایمان نہیں رکھتے ۔ { فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ } ( سورة النور 62) سو جب یہ لوگ تم سے کسی کام کے لئے ) اجازت مانگا کریں ۔ فریق والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آخرین، قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] (ر ق ) الفریق اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔ نبی النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة «2» ، وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» «3» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک . ( ن ب و ) النبی بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔ بيت أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] ، ( ب ی ت ) البیت اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ عور العَوْرَةُ سوأة الإنسان، وذلک کناية، وأصلها من العارِ وذلک لما يلحق في ظهوره من العار أي : المذمّة، ولذلک سمّي النساء عَوْرَةً ، ومن ذلک : العَوْرَاءُ للکلمة القبیحة، وعَوِرَتْ عينه عَوَراً وعَارَتْ عينه عَوَراً وعَوَّرَتْهَا، وعنه اسْتُعِيرَ : عَوَّرْتُ البئر، وقیل للغراب : الْأَعْوَرُ ، لحدّة نظره، وذلک علی عکس المعنی ولذلک قال الشاعر : وصحاح العیون يدعون عوراً والعَوارُ والعَوْرَةُ : شقّ في الشیء کا لثّوب والبیت ونحوه . قال تعالی: إِنَّ بُيُوتَنا عَوْرَةٌ وَما هِيَ بِعَوْرَةٍ [ الأحزاب/ 13] ، أي : متخرّقة ممكنة لمن أرادها، ومنه قيل : فلان يحفظ عَوْرَتَهُ ، أي : خلله، وقوله : ثَلاثُ عَوْراتٍ لَكُمْ [ النور/ 58] ، أي : نصف النهار وآخر اللیل، وبعد العشاء الآخرة، وقوله : الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلى عَوْراتِ النِّساءِ [ النور/ 31] ، أي : لم يبلغوا الحلم . وسهم عَائِرٌ: لا يدری من أين جاء، ولفلان عَائِرَةُ عين من المال «4» . أي : ما يعور العین ويحيّرها لکثرته، والْمُعَاوَرَةُ قيل في معنی الاستعارة . والعَارِيَّةُ فعليّة من ذلك، ولهذا يقال : تَعَاوَرَهُ العواري، وقال بعضهم : هو من العارِ ، لأنّ دفعها يورث المذمّة والعَارَ ، كما قيل في المثل : (إنه قيل لِلْعَارِيَّةِ أين تذهبين ؟ فقالت : أجلب إلى أهلي مذمّة وعَاراً ) ، وقیل : هذا لا يصحّ من حيث الاشتقاق، فإنّ العَارِيَّةَ من الواو بدلالة : تَعَاوَرْنَا، والعار من الیاء لقولهم : عيّرته بکذا . ( ع و ر ) العورۃ انسان کے مقام ستر کو کہتے ہیں مگر اس کے معنی کنائی ہیں اصل میں یہ عار سے مشتق ہے اور مقام ستر کے کھلنے سے بھی چونکہ عار محسوس ہوتی ہے اس لئے اسے عودۃ کہا جاتا ہے اور عورت کو بھی عورت اس لئے کہاجاتا ہے کہ ان کے بےستر رہنے کو باعث عار سمجھا جاتا ہے اسی سے بری بات کو اعوراء کہا جاتا ہے ۔ عورت عینہ عورا و عادت عینہ عورا اسکی ایک آنکھ کی بینائی جاتی رہی عور تھا میں نے اسے بھینگا کردیا ۔ اسی سے بطور استعارہ عورت البئر کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں مٹی ڈال کر کنوئیں کا پانی خشک کردینا اور مجازا نظر کی تیزی کی وجہ سے کوے کو الا عور کہا جاتا ہے جیسے کسی لفظ کو اس کی ضد میں استعمال کرلیتے ہیں چناچہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( 324 ) وصحاب العیون یدعین عورا تندرست آنکھوں والے آدمیوں کو بھینگا کہا جاتا ہے ۔ العوار والعوارۃ کے معنی کپڑے یا مکان وغیرہ میں شگاف کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ إِنَّ بُيُوتَنا عَوْرَةٌ وَما هِيَ بِعَوْرَةٍ [ الأحزاب/ 13] کہ ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں حالانکہ وہ کھلے نہیں تھے ۔ یعنی ان میں جگہ جگہ رخنے پڑے ہوئے ہیں جن میں سے جو چاہے ان کے ندر گھس سکتا ہے اسی سے محاورہ ہے فلان یحفظ عورتہ کہ فلاں اپنے خلیل کی حفاظت کرتے ہے اور آیت کریمہ : ۔ ثَلاثُ عَوْراتٍ لَكُمْ [ النور/ 58]( یہ تین ( وقت ) تمہارے پردے کے ہیں ۔ ن میں ثلاث عورات سے پردہ کے تین اوقات مراد ہیں یعنی دوپہر کے وقت عشا کی نماز کے بعد اور صبح کی نماز سے پہلے اور آیت کریمہ : ۔ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلى عَوْراتِ النِّساءِ [ النور/ 31] ( یا ایسے لڑکوں سے ) جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہو ۔ سے مراد نابالغ لڑکے ہیں جن میں ہننوز جنسیات کے متعلق یا توں کا شعور پیدا نہ ہوا ہو سھم عائر وہ تیر جو نامعلوم طرف سے آئے لفلان عائرۃ من المال فلاں کے پاس اتنا زیادہ مال ہے کہ اس کی فردانی آنکھ کو حیرت زدہ اور خیرہ کردیتی ہے المع اور ۃ بعض نے کہا ہے اس کے معنی مستعار لینے کے ہیں اور اسی سے عاریۃ بر وزن فعلیۃ ہے اسی سے کہا جاتا ہے تع اور العواری استعمال کی چیزیں باہم لینا دینا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عار سے مشتق ہے چونکہ کوئی چیز مستعار دیکر اسکا واپس لینا بھی موجب عار سمجھا جاتا ہے اس لئے اسے عاریۃ کہا جاتا ہے مثل مشہور ہے کہ عاریۃ ( مستعار لی ہوئی چیز ) سے کسی نے دریافت کیا کہ کدھر جارہی ہو تو اس نے کہا میں اپنے اہل کے لئے مذمت اور عار لینے جارہی ہوں ۔ بعض نے کہا ہے کہ عاریۃ کا مادہ وادی ہے جیسا کہ تع اور نا کا لفظ اس پر دلالت کرتا ہے اور عار کا مادہ پائی ہے ۔ جیسا کہ عیرے ہ بکذا کے محاورہ سے معلوم ہوتا ہے ۔ رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ فر أصل الفَرِّ : الکشف عن سنّ الدّابّة . يقال : فَرَرْتُ فِرَاراً ، ومنه : فَرَّ الدّهرُ جذعا «1» ، ومنه : الِافْتِرَارُ ، وهو ظهور السّنّ من الضّحك، وفَرَّ عن الحرب فِرَاراً. قال تعالی: فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ [ الشعراء/ 21] ، وقال : فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ [ المدثر/ 51] ، فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعائِي إِلَّا فِراراً [ نوح/ 6] ، لَنْ يَنْفَعَكُمُ الْفِرارُ إِنْ فَرَرْتُمْ [ الأحزاب/ 16] ، فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ [ الذاریات/ 50] ، وأَفْرَرْتُهُ : جعلته فَارّاً ، ورجل (ر ر ) الفروالفرار ۔ اس کے اصل معنی ہیں جانور کی عمر معلوم کرنے کے لئے اس کے دانتوں کو کھولنا اسی سے فرالدھر جذعا کا محاورہ ہے یعنی زمانہ اپنی پہلی حالت پر لوٹ آیا ۔ اور اسی سے افترار ہے جس کے معنی ہنسنے میں دانتوں کا کھل جانا کے ہیں ۔ فر من الحرب فرار میدان کا راز چھوڑ دینا ۔ لڑائی سے فرار ہوجانا قرآن میں ہے ۔ فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ [ الشعراء/ 21] تو میں تم سے بھاگ گیا ۔ فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ [ المدثر/ 51] یعنی شیر سے ڈر کر بھاگ جاتے ہیں ۔ فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعائِي إِلَّا فِراراً [ نوح/ 6] لیکن میرے بلانے سے اور زیادہ گریز کرتے رہے ۔ لَنْ يَنْفَعَكُمُ الْفِرارُ إِنْ فَرَرْتُمْ [ الأحزاب/ 16] کہ اگر تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھاگتے ہو تو بھاگنا تم کو فائدہ نہ دے گا ۔ فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ [ الذاریات/ 50] تو تم خدا کی طرف بھاگ چلو ۔ افررتہ کسی کو بھگا دینا ۔ رجل فر وفار ۔ بھاگنے والا ۔ المفر ( مصدر ) کے معنی بھاگنا ( ظرف مکان ) جائے ۔ فرار ( ظرف زمان ) بھاگنے کا وقت چناچہ آیت ؛ أَيْنَ الْمَفَرُّ [ القیامة/ 10] کہ ( اب ) کہاں بھاگ جاؤں کے معنی تینوں طرح ہوسکتے ہیں ۔
Top