Mufradat-ul-Quran - Al-Ahzaab : 26
وَ اَنْزَلَ الَّذِیْنَ ظَاهَرُوْهُمْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ صَیَاصِیْهِمْ وَ قَذَفَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ وَ تَاْسِرُوْنَ فَرِیْقًاۚ
وَاَنْزَلَ : اور اتار دیا الَّذِيْنَ : ان لوگوں کو ظَاهَرُوْهُمْ : جنہوں نے ان کی مدد کی مِّنْ : سے اَهْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب مِنْ : سے صَيَاصِيْهِمْ : ان کے قلعے وَقَذَفَ : اور ڈال دیا فِيْ : میں قُلُوْبِهِمُ : ان کے دل الرُّعْبَ : رعب فَرِيْقًا : ایک گروہ تَقْتُلُوْنَ : تم قتل کرتے ہو وَتَاْسِرُوْنَ : اور تم قید کرتے ہو فَرِيْقًا : ایک گروہ
اور اہل کتاب میں سے جنہوں نے ان کی مدد کی تھی ان کو انکے قلعوں سے اتار دیا اور انکے دلوں میں دہشت ڈال دی تو کتنوں کو تم قتل کردیتے تھے اور کتنوں کو قید کرلیتے تھے
وَاَنْزَلَ الَّذِيْنَ ظَاہَرُوْہُمْ مِّنْ اَہْلِ الْكِتٰبِ مِنْ صَيَاصِيْہِمْ وَقَذَفَ فِيْ قُلُوْبِہِمُ الرُّعْبَ فَرِيْقًا تَقْتُلُوْنَ وَتَاْسِرُوْنَ فَرِيْقًا۝ 26ۚ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا ظَاهَرَ ( مدد) وَظَهَرَ عليه : غلبه، وقال : إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ [ الكهف/ 20] ، وظاهَرْتُهُ : عاونته . قال تعالی: وَظاهَرُوا عَلى إِخْراجِكُمْ [ الممتحنة/ 9] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ [ التحریم/ 4] ، أي : تعاونا، تَظاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ البقرة/ 85] ، وقرئ : ( تَظَّاهَرَا) «2» ، الَّذِينَ ظاهَرُوهُمْ ظھر علیہ کے معنی ہیں وہ اس پر غالب آگیا قرآن پاک میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ [ الكهف/ 20] اگر وہ تم پر دسترس پالیں ۔ ظاھرتہ : میں نے اس کی مدد کی ( اور ظاھر علیہ کے معنی ہیں اس کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کی ) قرآن پاک میں ہے : ۔ وَظاهَرُوا عَلى إِخْراجِكُمْ [ الممتحنة/ 9] اور انہوں نے تمہارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ [ التحریم/ 4] اور اگر پیغمبر کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کروگی ۔ ایک قرات میں تظاھر ا ہے ( یعنی تار کو ظاء میں ادغام کیسا تھ ) الَّذِينَ ظاهَرُوهُمْ [ الأحزاب/ 26] اور اہل کتاب میں سے جہنوں نے ان کی مدد کی ۔ تَظاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ البقرة/ 85] تم ان کے خلاف گناہ اور زیادتی سے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہو ۔ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو صيص قوله تعالی: وَأَنْزَلَ الَّذِينَ ظاهَرُوهُمْ مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ مِنْ صَياصِيهِمْ [ الأحزاب/ 26] ، أي : حصونهم، وكلّ ما يتحصّن به يقال له : صِيصَةٌ ، وبهذا النّظر قيل لقرن البقر : صِيصَةٌ ، وللشّوكة التي يقاتل بها الدّيك : صِيصَةٌ ، والله أعلم بمراده وأسرار کتابه . ( ص ی ص ) الصیصۃ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ اپنے آپ کو محفوظ کیا جائے ( مثلا حفاظت گاہ اور قلعہ ) اس کی جمع الصیاصی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْزَلَ الَّذِينَ ظاهَرُوهُمْ مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ مِنْ صَياصِيهِمْ [ الأحزاب/ 26] اور اہل کتاب میں سے جنہوں نے ان کی مدد کی تھی ان کو ان کے قلعوں سے ( جن میں وہ محفوظ ہوگئے تھے ) اتار دیا ۔ پھر معنی حفاظت کے اعتبار سے گائے کے سینگ کو صیصۃ کہاجاتا ہے ۔ نیز اس کے معنی خار خروس بھی آتے ہیں کیونکہ وہ اس کے ذریعہ اپنے آپ کی حفاظت کرتا ہے اور دوسروں سے لڑتا ہے ۔ قذف الْقَذْفُ : الرّمي البعید، ولاعتبار البعد فيه قيل : منزل قَذَفٌ وقَذِيفٌ ، وبلدة قَذُوفٌ: بعیدة، وقوله : فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِ [ طه/ 39] ، أي : اطرحيه فيه، وقال : وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب/ 26] ، بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْباطِلِ [ الأنبیاء/ 18] ، يَقْذِفُ بِالْحَقِر عَلَّامُ الْغُيُوبِ [ سبأ/ 48] ، وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات/ 8- 9] ، واستعیر القَذْفُ للشّتم والعیب کما استعیر الرّمي . ( ق ذ) القذف ( ض ) کے معنی دور پھیکنا کے ہیں پھر معنی بعد کے اعتبار سے دور دراز منزل کو منزل قذف وقذیف کہاجاتا ہے اسی طرح دور در ازشہر کو بلدۃ قذیفۃ بول لیتے ہیں ۔۔۔ اور آیت کریمہ : فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِ [ طه/ 39] پھر اس ( صندوق ) کو دریا میں ڈال دو ۔ کے معنی دریا میں پھینک دینے کے ہیں ۔ نیز فرمایا : وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب/ 26] اور ان کے دلوں میں دہشت ڈال دی ۔ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْباطِلِ [ الأنبیاء/ 18] بلک ہم سچ کو جھوٹ پر کھینچ مارتے ہیں ۔ يَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَّامُ الْغُيُوبِ [ سبأ/ 48] وہ اپنے اوپر حق اتارتا ہے اور وہ غیب کی باتوں کا جاننے والا ہے ۔ وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات/ 8- 9] اور ہر طرف سے ( ان پر انگارے ) پھینکے جاتے ہیں ( یعنی ) وہاں سے نکال دینے کو ۔ اور رمی کی طرح قذف کا لفظ بھی بطور استعارہ گالی دینے اور عیب لگانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ رعب الرُّعْبُ : الانقطاع من امتلاء الخوف، يقال : رَعَبْتُهُ فَرَعَبَ رُعْباً ، فهو رَعِبٌ ، والتِّرْعَابَةُ : الفروق . قال تعالی: وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب/ 26] ، وقال : سَنُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ [ آل عمران/ 151] ، وَلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْباً [ الكهف/ 18] ، ولتصوّر الامتلاء منه قيل : رَعَبْتُ الحوص : ملأته، وسیل رَاعِبٌ: يملأ الوادي، ( ر ع ب ) الرعب ۔ اس کے اصل معنی خوف سے بھر کر کٹ جانے کے ہیں کہا جاتا ہے : ۔ رعبتہ فرعب رعبا ۔ میں نے اسے خوف زدہ کیا تو وہ خوف زدہ ہوگیا ۔ اور خوف زدہ شخص کو رعب کہا جاتا ہے ۔ الترعابۃ ( صیغہ صفت ) بہت زیادہ ڈر پوک ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب/ 26] ہم عنقریب تمہاری ہیبت کافروں کے دلوں میں بیٹھا دیں گے ۔ وَلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْباً [ الكهف/ 18] اور ان کی ( صورت حال سے ) تجھ میں ایک دہشت سما جائے پھر کبھی یہ صرف بھرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے رعبت الحوض میں نے حوض کو پانی سے پر کردیا ۔ سیل راعب : سیلاب جو وادی کو پر کر دے ۔ اور جاریۃ رعبوبۃ کے معنی جوانی سے بھرپور اور نازک اندام دو شیزہ کے ہیں اس کی جمع رعابیب آتی ہے ۔ فریق والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آخرین، قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] (ر ق ) الفریق اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔ قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] أسر الأَسْر : الشدّ بالقید، من قولهم : أسرت القتب، وسمّي الأسير بذلک، ثم قيل لكلّ مأخوذٍ ومقيّد وإن لم يكن مشدوداً ذلك «1» . وقیل في جمعه : أَسَارَى وأُسَارَى وأَسْرَى، وقال تعالی: وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان/ 8] . ويتجوّز به فيقال : أنا أسير نعمتک، وأُسْرَة الرجل : من يتقوّى به . قال تعالی: وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] إشارة إلى حکمته تعالیٰ في تراکيب الإنسان المأمور بتأمّلها وتدبّرها في قوله تعالی: وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلا تُبْصِرُونَ [ الذاریات/ 21] . والأَسْر : احتباس البول، ورجل مَأْسُور : أصابه أسر، كأنه سدّ منفذ بوله، والأسر في البول کالحصر في الغائط . ( ا س ر ) الاسر کے معنی قید میں جکڑ لینے کے ہیں ۔ یہ اسرت القتب سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں میں نے پالان کو مضبوطی سے باندھ دیا اور قیدی کو اسیر اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ رسی وغیرہ سے باندھا ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :َ { وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا } ( سورة الإِنْسان 8) اور یتیموں اور قیدیوں کو ۔ پھر اس شخص کو جو گرفتار اور مقید ہوکر آئے الاسیر کہہ دیا جاتا ہے گو وہ باندھا ہوا نہ ہوا سیر کی جمع اسارٰی و اساریٰ واسریٰ ہے اور مجازا ۔ انا اسیر نعمتک کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی تیرے احسان کی رسی میں بندھا ہوا ہوں ۔ اور اسرۃ الرجل کے معنی افراد خادندان کے ہیں جن سے انسان قوت حاصل کرتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَشَدَدْنَا أَسْرَهُمْ } ( سورة الإِنْسان 28) اور ان کی بندش کو مضبوطی سے باندھ دیا ۔ میں اس حکمت الہی کی طرف اشارہ ہے جو انسان کی بئیت ترکیبی میں پائی جاتی ہے جس پر کہ آیت { وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ } ( سورة الذاریات 21) میں غور فکر کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ الاسر ۔ کے معنی ہیں پیشاب بند ہوجانا ۔ اور جو شخص اس بماری میں مبتلا ہوا سے عاسور کہا جاتا ہے گو یا اس کی پیشاب کی نالی بند کردی گئی ہے اس کے مقابلہ میں پاخانہ کی بندش پر حصر کا لفظ بولا جاتا ہے ۔
Top