Mufradat-ul-Quran - Al-Ahzaab : 27
وَ اَوْرَثَكُمْ اَرْضَهُمْ وَ دِیَارَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ وَ اَرْضًا لَّمْ تَطَئُوْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرًا۠   ۧ
وَاَوْرَثَكُمْ : اور تمہیں وارث بنادیا اَرْضَهُمْ : ان کی زمین وَدِيَارَهُمْ : اور ان کے گھر (جمع) وَاَمْوَالَهُمْ : اور ان کے مال (جمع) وَاَرْضًا : اور وہ زمین لَّمْ تَطَئُوْهَا ۭ : تم نے وہاں قدم نہیں رکھا وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرًا : قدرت رکھنے والا
اور انکی زمین اور ان کے گھروں اور ان کے مال کا اور اس زمین کا جس میں تم نے پاؤں بھی نہیں رکھا تھا تم کو وارث بنادیا اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
وَاَوْرَثَكُمْ اَرْضَہُمْ وَدِيَارَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ وَاَرْضًا لَّمْ تَطَـــــُٔـوْہَا۝ 0 ۭ وَكَانَ اللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرًا۝ 27ۧ ورث الوِرَاثَةُ والإِرْثُ : انتقال قنية إليك عن غيرک من غير عقد، ولا ما يجري مجری العقد، وسمّي بذلک المنتقل عن الميّت فيقال للقنيةِ المَوْرُوثَةِ : مِيرَاثٌ وإِرْثٌ. وتُرَاثٌ أصله وُرَاثٌ ، فقلبت الواو ألفا وتاء، قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر/ 19] وقال عليه الصلاة والسلام : «اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» «2» أي : أصله وبقيّته، قال الشاعر : 461- فينظر في صحف کالرّيا ... ط فيهنّ إِرْثٌ کتاب محيّ «3» ويقال : وَرِثْتُ مالًا عن زيد، ووَرِثْتُ زيداً : قال تعالی: وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل/ 16] ، وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء/ 11] ، وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة/ 233] ويقال : أَوْرَثَنِي الميّتُ كذا، وقال : وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً [ النساء/ 12] وأَوْرَثَنِي اللهُ كذا، قال : وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 59] ، وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان/ 28] ، وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب/ 27] ، وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف/ 137] ، وقال : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً [ النساء/ 19] ويقال لكلّ من حصل له شيء من غير تعب : قد وَرِثَ كذا، ويقال لمن خُوِّلَ شيئا مهنّئا : أُورِثَ ، قال تعالی: وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف/ 72] ، أُولئِكَ هُمُ الْوارِثُونَ الَّذِينَ يَرِثُونَ [ المؤمنون/ 10- 11] وقوله : وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ [ مریم/ 6] فإنه يعني وِرَاثَةَ النّبوّةِ والعلمِ ، والفضیلةِ دون المال، فالمال لا قدر له عند الأنبیاء حتی يتنافسوا فيه، بل قلّما يقتنون المال ويملکونه، ألا تری أنه قال عليه الصلاة ( ور ث ) الوارثۃ ولا رث کے معنی عقد شرعی یا جو عقد کے قائم مقام ہے اوکے بغیر کسی چیز کے ایک عقد کے قائم مقام ہے کے بغیر کسی چیز کے ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دسرے کی ملکیت میں چلے جانا کئے ہیں اسی سے میت کی جانب سے جو مال ورثاء کی طرف منتقل ہوتا ہے اسے اذث تراث اور کیراث کہا جاتا ہے اور تراث اصل میں وراث ہے واؤ مضموم کے شروع میں آنے کی وجہ سے اسے تا سے تبدیل کرلو اسے چناچہ قرآن میں سے ۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر/ 19] اور حج کے موقعہ پر آنحضرت نے فرمایا : ۔ کہ اپنے مشاعر ( مواضع نسکہ ) پر ٹھہرے رہو تم اپنے باپ ( ابراہیم کے ورثہ پر ہو ۔ تو یہاں ارث کے معنی اصل اور بقیہ نشان کے ہیں ۔۔ شاعر نے کہا ہے ( 446 ) فینظر فی صحف کالریا فیھن ارث کتاب محی وہ صحیفوں میں تالت باندھنے والے کی طرح غور کرتا ہے جن میں کہ مٹی ہوئی کتابت کا بقیہ ہے ۔ اور محاورہ میں ورث مالا عن زید وو رثت زیدا ( میں زید کا وارث بنا دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل/ 16] اور سلیمان داؤد کے قائم مقام ہوئے ۔ وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء/ 11] اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں ۔ وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة/ 233] اور اسی طرح نان ونفقہ بچے کے وارث کے ذمہ ہے يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً [ النساء/ 19] مومنوں تم کو جائز نہیں ہے کہ زبر دستی عورتوں کے وارث بن جاؤ ۔ اور اوثنی المیت کذا کے معنی ہیں میت نے مجھے اتنے مال کا وارث بنایا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً [ النساء/ 12] اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا ۔ اور اور ثنی اللہ کذا کے معنی کسی چیز کا وارث بنا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 59] اور بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا ۔ وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان/ 28] اور ان کی زمین کا تم کو وارث بنایا : ۔ وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب/ 27] اور جو لوگ ( کمزور سمجھے جاتے تھے ان کو وارث کردیا ۔ وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف/ 137] ہر وہ چیز جو بلا محنت ومشقت حاصل ہوجائے اس کے متعلق ورث کذا کہتے ہیں اور جب کسی کو خوشگوار چیز بطور دی جانے تو اورث کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف/ 72] اور یہ جنت جس کے تم مالک کردیئے گئے ہو أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ دار الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ، أي : الجنة، ( د و ر ) الدار ۔ منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے وطأ وَطُؤَ الشیءُ فهو وَطِيءٌ بيّن الوَطَاءَةِ ، والطَّأَةِ والطِّئَةِ ، والوِطَاءُ : ما تَوَطَّأْتَ به، ووَطَأْتُ له بفراشه . ووَطَأْتُهُ برجلي أَطَؤُهُ وَطْأً ووَطَاءَةً ، وتَوَطَّأْتُهُ. قال اللہ تعالی: إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل/ 6] وقرئ : وِطَاءً وفي الحدیث : «اللهمّ اشدد وَطْأَتَكَ علی مضر» أي : ذلّلهم . ووَطِئَ امرأتَهُ كناية عن الجماع، صار کالتّصریح للعرف فيه، والمُوَاطَأَةُ : الموافقة، وأصله أن يَطَأَ الرجل برجله مَوْطِئَ صاحبه . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّمَا النَّسِيءُ إلى قوله : لِيُواطِؤُا عِدَّةَ ما حَرَّمَ اللَّهُ [ التوبة/ 37] ( و ط ء ) وطوء الشئی فھواوطییء : کے معنی کسی چیز کے پامال ہونے کے ہیں ۔ الوطاء ہر اس شے کو کہتے ہیں جو پاؤں کے نیچے روندی جائے جیسے فراش وغیرہ ۔ وطات لہ بفرشہ کسی کے لئے فراش بچھا نا ۔ وطا تہ برجل وطا ووطا ۃ ووطا ءۃ وتوطاحہ کسی چیز کو پاوں سے روند نا قرآن پاک میں ہے : ۔ إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل/ 6] کچھ شک نہیں کہ رات کا اٹھنا ( نفس بہیمی کو ) سخت پامال کرتا ہے ۔ ایک قرات میں وطاء ہے اور حدیث میں ہے ( اللھم اشدد وطاتک علی مضر) اے اللہ مضر پر اپنی گرفت کو سخت کر یعنی انہیں ذلیل کر وطی امراء تہ عورت سے ہمبستری کرنا یہ لفظ اگر چہ اپنے اصل معنی کے لحاظ سے جماع کے معنی میں بطو ر کنایہ استعمال ہوتا ہے لیکن عرف میں بمنزلہ لفظ صریح کے ہیں ۔ المواطاۃ ۔ اس کے معنی موافقت کے آتے ہیں اور اصل معنی دوسرے کے نشان قدم پر اپنا قدم رکھنے کے ہیں چناچہ آیت آخر میں فرمایا ۔ لِيُواطِؤُا عِدَّةَ ما حَرَّمَ اللَّهُ [ التوبة/ 37] تاکہ ادب کے مہینوں کی جو خدا نے مقرر کئے ہیں ۔ گنتی پوری کرلیں ۔ شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، قَدِيرُ : هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة/ 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] . القدیر اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف/ 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے
Top